Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Makafat e Amal, Haqiqat Aur Ghalat Fehmiyan

Makafat e Amal, Haqiqat Aur Ghalat Fehmiyan

مکافاتِ عمل، حقیقت اور غلط فہمیاں

انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج کیا ہیں اور انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ کب اور کیسے ملتا ہے؟ اسلام نے اس سوال کا نہایت جامع اور واضح جواب دیا ہے جسے ہم مکافاتِ عمل کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے زمانے میں اس خوبصورت اور عدل پر مبنی تصور کو لوگ محض دھونس، ڈراوے اور ذاتی سکون کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ کوئی رشتہ ٹوٹے، کسی کا دل دکھے یا کسی پر غصہ آئے تو فوراً کہا جاتا ہے: "اب دیکھنا اس پر بھی مکافاتِ عمل آئے گا"۔ یہ جملہ سننے میں شاید دلاسہ دیتا ہو، مگر حقیقت میں یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اسلام کے مطابق مکافاتِ عمل کی اصل تعریف یہ ہے کہ انسان کے ہر اچھے یا برے عمل کا ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے، جو یا تو اسی دنیا میں سامنے آتا ہے یا آخرت میں ظاہر ہوگا۔ قرآن مجید میں کئی جگہ صاف الفاظ میں کہا گیا ہے: "فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ" یعنی جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ بھی اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے عمل رائیگاں نہیں جاتے، ہر عمل کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے اور بالآخر انصاف کے ترازو میں رکھا جائے گا۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مکافاتِ عمل کا تعلق صرف ظاہری حادثات یا وقتی حالات سے نہیں۔ بعض اوقات نیک لوگ بڑی مشکلات میں نظر آتے ہیں اور برے لوگ آسائشوں میں، تو دیکھنے والا فوراً یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ شاید انصاف نہیں ہوا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا عدل وسیع ہے، اس کی حکمت گہری ہے اور اس کے فیصلوں کا وقت ہماری عقل اور گھڑی کے مطابق نہیں چلتا۔ کبھی کسی کا بدلہ فوراً مل جاتا ہے، کبھی برسوں بعد اور کبھی آخرت کے دن کے لیے رکھا جاتا ہے۔

آج کے دور میں لوگ اس تصور کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آپ سے الگ ہو جائے یا آپ کے ساتھ تعلق میں کمی کرے تو ہم اسے فوراً "مکافاتِ عمل" کا شکار قرار دے دیتے ہیں۔ یہ رویہ دو پہلوؤں سے خطرناک ہے، ایک تو یہ کہ ہم اللہ کے فیصلے کو اپنے جذبات کے مطابق طے کرنے لگتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم اندر سے بدلے کی خواہش رکھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ اصل مسلمان وہ ہے جو معاملہ اللہ کے سپرد کر دے، دل کو نفرت اور حسد سے پاک رکھے اور انصاف پر بھروسہ کرے۔

مکافاتِ عمل کی صحیح سمجھ ہمیں صبر، شکر اور احتساب سکھاتی ہے۔ اگر ہم پر کوئی مصیبت آئے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ میرے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ یہ میرے لیے آزمائش یا درجات کی بلندی کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر ہمیں کوئی آسانی ملے تو یہ اللہ کا فضل بھی ہے اور ہمارے کسی اچھے عمل کا پھل بھی۔ لیکن جب ہم دوسروں پر فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ برا ہوا تو یہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے، تو ہم اپنی حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ قرآن نے ہمیں بار بار بتایا ہے کہ کسی کے دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے اور اصل حساب اُسی دن ہوگا جس دن کوئی زبان خاموش نہ ہوگی اور ہر چیز کھل کر سامنے آ جائے گی۔

موجودہ دور میں ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ لوگ "مکافاتِ عمل" کو نفسیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی رشتہ ٹوٹے یا کاروبار میں نقصان ہو تو آس پاس کے لوگ فوراً کہہ دیتے ہیں: "یہ سب اس کے پچھلے ظلم یا برائی کا نتیجہ ہے"۔ یہ سوچ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ بھی پیدا کرتی ہے، کیونکہ ہم دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان پر نمک چھڑکنے لگتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ دوسروں کو ڈھارس دینے، دعا کرنے اور خیر خواہی کی تعلیم دی، نہ کہ یہ کہ دکھ کے لمحے میں ان کو ان کے گناہوں کی یاد دہانی کروائی جائے۔

اسی طرح بعض لوگ ذاتی بدلے کے طور پر بھی مکافاتِ عمل کا نام لیتے ہیں۔ جب وہ خود کسی کو سزا نہیں دے پاتے تو دل کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں: "اب اللہ اس کا بدلہ لے گا"۔ حالانکہ درست طریقہ یہ ہے کہ ہم دعا کریں: "اللهم لا تجعل في قلبي غلًّا للذين آمنوا" یعنی اے اللہ میرے دل میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ باقی نہ رکھ۔ اگر ہم اپنی زندگی کو بدلے کی خواہش کے بغیر گزاریں تو ہمارے دل بھی ہلکے ہو جائیں گے اور مکافاتِ عمل کی اصل روح بھی سمجھ آ جائے گی۔

اسلامی تاریخ ہمیں یہ بھی دکھاتی ہے کہ مکافاتِ عمل محض سزا کا نام نہیں بلکہ یہ جزا اور انعام کا بھی نظام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی کو محض اللہ کے لیے مسکرا کر دیکھے تو بھی یہ نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کا پھل ملتا ہے۔ یعنی اچھے اعمال بھی انسان کی زندگی میں خوشیوں، سکون اور برکت کے طور پر واپس آتے ہیں۔ اس کے برعکس جھوٹ، دھوکہ اور ظلم کسی نہ کسی صورت میں انسان کے سامنے آتے ہیں، خواہ دنیا میں ذلت کی شکل میں ہوں یا آخرت میں عذاب کی شکل میں۔

آج کے حالات میں اگر ہم اس تصور کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو ہماری معاشرت بدل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر سیاست میں ہم دیکھتے ہیں کہ طاقتور لوگ جب ظلم اور کرپشن کرتے ہیں تو عوام بد دعا دیتے ہیں کہ ان پر مکافاتِ عمل آئے۔ اگرچہ یہ احساس فطری ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل بدلہ اللہ لے گا اور شاید وہ بدلہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہ بھی آئے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عدل قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں، قانون کا سہارا لیں اور ساتھ ہی اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔

مکافاتِ عمل کو صحیح تناظر میں دیکھنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرے۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے برے وقت کو مکافاتِ عمل کہیں، بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں اور سوچیں کہ میرے اعمال کیسے ہیں؟ کیا میں دوسروں کے ساتھ انصاف کرتا ہوں؟ کیا میں رشتوں میں بھلائی کو ترجیح دیتا ہوں؟ کیا میرا لین دین شریعت کے مطابق ہے؟ اگر ہم یہ احتساب شروع کر دیں تو معاشرے میں نفرت کم اور بھلائی زیادہ ہو جائے گی۔

آخر میں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسلام نے ہمیں امید اور خوف دونوں کی راہ دکھائی ہے۔ امید یہ کہ اچھا عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا اور خوف یہ کہ برے عمل کا حساب لازمی ہے۔ لیکن یہ امید اور خوف اپنے لیے ہیں، دوسروں کے بارے میں حتمی فیصلے دینا ہمارا کام نہیں۔ لہٰذا مکافاتِ عمل کو صرف ایک سچائی کے طور پر یاد رکھنا چاہیے، نہ کہ ڈراوے یا دھونس کے ہتھیار کے طور پر۔

اسلامی نقطۂ نظر یہی ہے کہ مکافاتِ عمل کا اصل مقصد انسان کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرنا ہے، دوسروں پر انگلی اٹھانے کے لیے نہیں۔ آج کے دور میں اگر ہم نے اس تصور کو صحیح جگہ استعمال کرنا شروع کر دیا تو دلوں سے کینہ اور بدلے کی خواہش نکل جائے گی، معاشرتی رویے نرم ہو جائیں گے اور ہم اصل امن و سکون کے قریب ہو جائیں گے۔ مکافاتِ عمل کوئی ڈراؤنی چیز نہیں بلکہ اللہ کا عدل ہے جو انسان کو اس کے عمل کے مطابق پھل دیتا ہے۔ اس عدل پر بھروسہ رکھنے والا انسان کبھی دوسروں کو ڈرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ خود نیکی کے راستے پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan