Khamoshi Ke Qaidi Aur Sah Ki Taqat
خاموشی کے قیدی اور سچ کی طاقت

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں الفاظ کی قیمت کم اور خاموشی کا بوجھ زیادہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جہاں اکثر ذہین اور سوچنے والے لوگوں کو اپنی زبان پر تالے ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگ ناراض نہ ہوں جو اپنی انا کے حصار میں قید ہیں۔ آج کی دنیا میں سب کچھ ہے، سوشل میڈیا ہے، آزاد ذرائع ابلاغ ہیں، تعلیمی ادارے ہیں، مگر اس سب کے باوجود آزاد سوچ اور کھری بات کی گنجائش تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس معاشرے میں شور مچانے والے، بنا سوچے سمجھے رائے دینے والے اور دوسروں کو دبا دینے والے آگے بڑھ جاتے ہیں، جبکہ سنجیدہ اور ذہین لوگ خاموش رہ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
یہ حقیقت میں نے اپنی زندگی میں کئی بار محسوس کی ہے۔ ایک استاد، ٹرینر اور سماجی کارکن کے طور پر میرا مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے ایسا ماحول بنا دیا ہے جہاں حق بات کرنے کے بجائے "چپ رہنے" کو سمجھداری مانا جاتا ہے۔ میں نے تعلیم کی دنیا میں جب بھی کسی نئی سوچ یا مثبت فیڈبیک کو متعارف کروانے کی کوشش کی، تو اکثر مجھے یہ احساس ہوا کہ سننے والوں کے چہروں پر جھنجھلاہٹ زیادہ اور دلچسپی کم ہے۔ جیسے کوئی یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ کسی کی بات میں بہتری کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے۔
یہی تجربہ مجھے حال ہی میں اپنے ادارے، الفلق انٹرنیشنل سکول، کالونی روڈ فاروق آباد کیمپس میں ہونے والی ایک ٹریننگ کے دوران ہوا۔ اس ٹریننگ کا مقصد اساتذہ کو بہتر تدریسی حکمتِ عملی اور خود اعتمادی دینے کا تھا۔ لیکن جب ٹریننگ کے اختتام پر اساتذہ کو فیڈبیک دینے اور پریزنٹیشن کرنے کے لیے کہا گیا تو نتیجہ مایوس کن نکلا۔ زیادہ تر اساتذہ نے مثبت جواب دینے سے گریز کیا، کچھ نے اپنی بات کو سرسری انداز میں پیش کیا اور کچھ نے تو خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس لمحے میں نے شدت سے محسوس کیا کہ یہ وہی معاشرتی رویہ ہے جو ذہین لوگوں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ بولنے کا فائدہ کیا، کوئی سنے گا تو ویسے بھی نہیں۔ یہی وہ لمحے ہیں جب تعلیمی اداروں کا ماحول جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور نئی نسل تک وہ اعتماد منتقل نہیں ہو پاتا جس کی انہیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر استاد ہی اظہار سے گھبرانے لگے تو طالبعلموں کو کیا اعتماد ملے گا؟
یہ مسئلہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے گھروں اور خاندانوں میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ فیملی کے کسی معاملے پر بات چیت ہو تو زیادہ تر وہی لوگ حاوی ہو جاتے ہیں جو زور سے بولتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ ان کی بات میں وزن کتنا ہے۔ جو لوگ خاموشی سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اکثر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانوں میں غلط فہمیاں بڑھتی ہیں، تعلقات ٹوٹتے ہیں اور ایک انجانی سرد مہری گھر کر جاتی ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اختلاف رائے فطری چیز ہے لیکن ہم نے اسے انا کا مسئلہ بنا کر اپنے تعلقات کو قربان کرنا شروع کر دیا ہے۔
اسلام کی تعلیمات ہمیں بالکل مختلف راستہ دکھاتی ہیں۔ قرآن بار بار کہتا ہے کہ "حق بات کو حق کی طرح کہو" لیکن ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ "نرمی اور اچھے انداز سے بات کرو"۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "مومن وہ ہے جس سے دوسرے مومن محفوظ رہیں، نہ اس کی زبان سے انہیں تکلیف پہنچے اور نہ ہاتھ سے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی بات ضرور کہنی چاہیے، مگر اس انداز سے کہ سننے والا عزت اور احترام محسوس کرے۔ بات کو دبانا بھی غلط ہے اور سختی سے جتا دینا بھی درست نہیں۔ اصل راستہ یہ ہے کہ اختلاف کو تحمل سے بیان کریں، دوسرے کی بات سنیں، اس کا پہلو سمجھیں، پھر دلیل اور محبت کے ساتھ بتائیں کہ یہ کیوں درست نہیں۔ یہی طرز عمل تعلقات کو بچاتا ہے اور معاشرے کو آگے بڑھاتا ہے۔
یہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو صرف اپنے نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی کو حق مان لیتے ہیں۔ دوسروں کے زاویے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر واقعے اور ہر رائے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے نظریے کو مکمل حق سمجھ کر دوسروں پر مسلط کریں تو یہ ظلم ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم دوسرے کی رائے سنیں اور اسے عزت دیں تو یہ نہ صرف تعلقات کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ہمیں خود بھی بہتر بناتا ہے۔ اسی لیے کہاوتوں اور پرانی کتابوں کی کہانیوں کو حقیقت نہیں بلکہ صرف علامت سمجھنا چاہیے۔ ان کہانیوں کا مقصد سبق دینا ہوتا ہے، انہیں اپنی زندگی پر حرف بہ حرف لاگو کرنا عقل مندی نہیں۔
میری فیلڈ میں بار بار یہ پہلو ابھرتا ہے۔ ایک طالبعلم جب سوال کرتا ہے اور استاد اسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیتا ہے کہ "یہ سوال فضول ہے" تو وہ لمحہ دراصل سوچ کی ایک نئی کھڑکی کو بند کر دیتا ہے۔ اسی طرح جب کسی استاد کو نیا آئیڈیا دیا جائے اور وہ یہ کہہ دے کہ "ہم نے ہمیشہ ایسے ہی کیا ہے" تو اس رویے کے باعث ادارے میں ترقی رک جاتی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہر سوال کو موقع سمجھا جائے اور ہر آئیڈیا کو آزمایا جائے، کیونکہ یہی طرز عمل نئی نسل کو اعتماد دیتا ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ خاموشی ہمیشہ سنجیدگی کی علامت نہیں ہوتی بلکہ کئی بار کمزوری اور بزدلی کا اظہار بھی ہوتی ہے۔ جب ذہین لوگ خاموش ہو جاتے ہیں تو میدان خالی رہ جاتا ہے ان کے لیے جو صرف شور مچانا جانتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اداروں، خاندانوں اور معاشرے کو پیچھے لے جاتے ہیں۔ اگر ہم نے اس رویے کو نہ بدلا تو ہم ہمیشہ mediocrity میں جکڑے رہیں گے۔ لیکن اگر ہم نے ہمت کی اور اپنی بات دلیل اور عزت کے ساتھ کہنے کا حوصلہ پیدا کیا تو معاشرہ ترقی کرے گا اور آنے والی نسلوں کو وہ اعتماد ملے گا جو کامیابی کی بنیاد ہے۔
میری ذاتی زندگی اور فیلڈ کے تجربات مجھے یہی سکھاتے ہیں کہ ہمیں اپنی خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ لیکن یہ خاموشی اس طرح نہیں ٹوٹنی چاہیے کہ دوسروں کی عزت مجروح ہو۔ ہمیں اپنے لہجے کو محبت بھرا رکھنا ہے، اپنی دلیل کو مضبوط بنانا ہے اور دوسرے کے زاویے کو سمجھنا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں سچ کا مسافر بناتا ہے اور خاموشی کے قیدی رہنے سے بچاتا ہے۔
میں، سر عدیل الیاس، نے جب بھی اس رویے کو اپنایا تو دیکھا کہ تعلقات مضبوط ہوئے، لوگوں نے عزت دی اور ماحول بہتر ہوا۔ یہی پیغام میں اپنے اس کالم کے ذریعے دینا چاہتا ہوں کہ بولیے ضرور، مگر دلیل اور احترام کے ساتھ۔ کیونکہ اگر ہم نے ہمیشہ خاموشی کو ہی حل سمجھا تو آنے والی نسلیں سوال کرنا بھی بھول جائیں گی اور جب سوال مر جاتا ہے تو معاشرے کی ترقی بھی مر جاتی ہے۔

