Jadeed Aur Purani Riwayat Ka Milap
جدید تعلیم اور پرانی روایات کا ملاپ

دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہر شعبے میں جدیدیت کا غلبہ ہے۔ تعلیم بھی اس ترقی سے متاثر ہو رہی ہے اور جدید تعلیمی نظام نے روایتی تعلیم کو کافی حد تک پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جدید تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن پرانی روایات کی اہمیت بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا جدید تعلیم اور پرانی روایات کو یکجا کرکے ایک متوازن نظام تعلیم تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس ملاپ کے فوائد اور طریقے کیا ہو سکتے ہیں؟
جدید تعلیم کا بنیادی مقصد طلبہ کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ تعلیم سائنسی اصولوں، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیقی طریقوں پر مبنی ہوتی ہے۔ جدید تعلیمی ادارے طلبہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کمپیوٹر لیبارٹریز، ڈیجیٹل کلاس رومز اور آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز آج کے تعلیمی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ جدید تعلیم طلبہ کو تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور مسائل حل کرنے کی مہارت فراہم کرتی ہے۔ اس کا مقصد صرف کتابی علم نہیں بلکہ عملی تربیت بھی ہے تاکہ طلبہ عملی میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم میں معاشرتی اور سائنسی مسائل کا حل تلاش کرنے پر بھی زور دیا جاتا ہے۔
تعلیم کی روایتی صورت میں استاد اور شاگرد کے درمیان گہرا تعلق ہوتا تھا۔ استاد کو نہ صرف علم کا منبع سمجھا جاتا تھا بلکہ وہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا اہم ذریعہ بھی تھے۔ پرانے وقتوں میں تعلیم کا مقصد صرف کتابی علم حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ طلبہ کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی مقصود ہوتی تھی۔ روایتی تعلیم میں ادب، تہذیب، اخلاقیات اور مذہبی اصولوں پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ طلبہ کو بزرگوں کا احترام، استاد کی عزت اور معاشرتی اقدار کی پاسداری سکھائی جاتی تھی۔ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں تھی بلکہ عملی زندگی کے مسائل کا حل بھی سکھایا جاتا تھا۔
آج کے دور میں جدید تعلیم اور پرانی روایات کے درمیان ایک واضح خلا محسوس ہوتا ہے۔ جدید تعلیم جہاں ٹیکنالوجی اور سائنس پر زور دیتی ہے، وہیں روایتی تعلیم میں اخلاقی تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جدید تعلیم کا مقصد طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے جبکہ روایتی تعلیم کا مقصد انہیں اچھا انسان بنانا ہے۔
مثال کے طور پر، آج کے جدید تعلیمی ادارے طلبہ کو کمپیوٹر سائنس، انجینئرنگ اور سائنسی تحقیق میں ماہر بنا رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی اخلاقیات اور روحانیت کی کمی بھی واضح ہے۔ دوسری جانب، روایتی تعلیم میں طلبہ کو اخلاقی اصولوں کے ساتھ ساتھ دینی اور سماجی علوم بھی سکھائے جاتے تھے، لیکن عملی تربیت کی کمی تھی۔
آج کے دور میں جدید تعلیم اور پرانی روایات کے درمیان ایک بڑا خلا ہے۔ جدید تعلیم نے طلبہ کو جدید مہارتوں سے لیس تو کر دیا ہے، لیکن ان کے اخلاقی اور روحانی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے نوجوان عملی میدان میں تو کامیاب ہیں لیکن اخلاقی تربیت میں پیچھے ہیں۔ جدید تعلیمی نظام میں روحانیت اور اخلاقیات پر توجہ نہ ہونے کے باعث طلبہ میں مادہ پرستی اور خود غرضی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، پرانی روایات میں عملی تربیت اور جدید سائنسی علوم کی کمی نے طلبہ کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھا۔
دورِ حاضر میں یہ ضروری ہے کہ جدید تعلیم اور پرانی روایات کے درمیان ایک توازن قائم کیا جائے۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو طلبہ کو جدید سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی فراہم کرے۔ جدید تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کو لازمی بنایا جائے۔ نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جو طلبہ کو ایمانداری، سچائی، محبت اور انسانیت کی قدروں سے روشناس کرائیں۔ اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ صرف تعلیمی مواد کی تدریس پر توجہ نہ دیں بلکہ طلبہ کے کردار اور اخلاق پر بھی نظر رکھیں۔
ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو اپنی ثقافت اور تہذیب کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ ڈیجیٹل مواد میں علاقائی تاریخ، زبان اور ادب کو شامل کیا جائے تاکہ طلبہ اپنی جڑوں سے جڑے رہیں۔ جدید تعلیم کے ساتھ روایتی مواد کو بھی ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کیا جائے تاکہ طلبہ ان سے مستفید ہو سکیں۔ استاد کو صرف علم دینے والا نہیں بلکہ تربیت کرنے والا بھی تصور کیا جائے۔ اساتذہ کو جدید تربیتی کورسز کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کے پہلو پر بھی زور دینا چاہیے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان روایتی احترام اور شفقت کے رشتے کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا تاکہ تعلیم صرف ڈگری کا حصول نہ رہے بلکہ انسان سازی کا عمل بھی ہو۔
مدارس اور جدید تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہوگا تاکہ جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی تربیت بھی ممکن ہو سکے۔ مثال کے طور پر، اسکولوں میں دینی اور روحانی تربیت کے ماہرین کو مدعو کیا جائے تاکہ طلبہ کو ایمان اور اخلاق کی تربیت دی جا سکے۔
جدید تعلیم اور پرانی روایات کے امتزاج کے کئی مثبت پہلو ہیں۔ جدید تعلیم کے ساتھ روایتی تربیت طلبہ میں کردار سازی، روحانیت اور جدید مہارتوں کا بہترین امتزاج پیدا کرے گی۔ یہ طلبہ کو نہ صرف علمی بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط بنائے گی۔ اخلاقی تربیت کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی میں بہتری آئے گی۔ طلبہ میں دوسروں کے حقوق کا احترام اور انسانیت سے محبت پیدا ہوگی۔ روایتی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کو شامل کرنے سے ثقافت اور زبان کی بقا ممکن ہوگی۔ جدید اور روایتی تعلیم کے امتزاج سے تخلیقی سوچ اور جدید مہارتوں کے ساتھ ساتھ روایتی دانش بھی پروان چڑھے گی۔ جدید تعلیم کے ساتھ روحانی تربیت سے طلبہ میں عملی مہارتوں کے ساتھ ایمان اور یقین بھی مضبوط ہوگا۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت، کردار سازی اور معاشرتی اصلاح ہے۔ جدید تعلیم اور پرانی روایات کا ملاپ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق تیار کرے اور ساتھ ہی ان کی اخلاقی تربیت کو بھی یقینی بنائے۔ جدید تعلیم کی افادیت اپنی جگہ، لیکن روایتی اقدار کو بھی پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ان دونوں کو ملا کر ہم اپنے طلبہ کو ایک مضبوط، باکردار اور باشعور انسان بنا سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔