Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adeel Ilyas
  4. Awaz Aur Notification

Awaz Aur Notification

آواز اور نوٹیفکیشن

انسانی زندگی اگر آواز کے بغیر دیکھی جائے تو یہ ایک ادھوری تصویر لگتی ہے۔ ماں کی کوکھ میں بچے کا پہلا تعارف دھڑکن کی آواز سے ہوتا ہے اور دنیا میں آتے ہی اس کی پہلی چیخ زندگی کی موجودگی کا اعلان کرتی ہے۔ آواز محض ایک ارتعاش نہیں بلکہ ایک پیغام ہے، کبھی ماں کی لوری کی صورت میں سکون دیتی ہے، کبھی اذان کی صدا میں روح کو جگاتی ہے، کبھی بارش کے قطروں کی ٹپک سے دل کو نرم کرتی ہے اور کبھی پرندوں کے چہچانے سے دن کی تازگی کو بڑھاتی ہے۔ مگر آج کی دنیا میں آواز نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے جسے ہم نوٹیفکیشن کہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی بیپ اور ٹن ٹن ہماری روزمرہ زندگی میں اس طرح داخل ہو چکی ہیں کہ ان کے بغیر دن کا تصور بھی مشکل لگنے لگا ہے۔ صبح جاگنے سے پہلے موبائل کی ٹون ہمارے کانوں میں پڑتی ہے اور رات سونے سے پہلے بھی کوئی نہ کوئی ایپ ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتی ہے۔

یہ نوٹیفکیشن صرف ایک سہولت نہیں بلکہ ایک ذہنی دباؤ ہے جو ہماری توجہ کو بار بار بکھیر دیتا ہے۔ جیسے ہی موبائل بجتا ہے تو ہماری نظریں فوراً اسکرین کی طرف اٹھتی ہیں۔ چاہے ہم کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں، دوستوں کی محفل میں ہوں یا کسی عبادت میں مشغول، دل کے اندر ایک بے چینی پیدا ہو جاتی ہے کہ دیکھیں یہ پیغام کس کا ہے۔ پرانے وقتوں میں ڈاکیہ خط لاتا تھا اور مہینوں بعد آنے والا وہ کاغذ خوشی اور بے تابی سے کھولا جاتا تھا۔ آج وہی بے تابی ہر دو منٹ بعد آنے والے نوٹیفکیشن کے ساتھ ہے مگر اس میں خوشی کے بجائے ایک عجیب سا اضطراب چھپا ہے۔

ماضی کی آوازیں انسان کو اکٹھا کرتی تھیں۔ گاؤں کی گلیوں میں ڈھول بجتا تو سب لوگ شادی کی خوشی میں شریک ہوتے۔ مسجد کی آذان محلے والوں کو صفوں میں کھڑا کر دیتی۔ اسکول کی گھنٹی بچوں کو علم کی طرف بلاتی۔ مگر آج کی آوازیں ہمیں جوڑنے کے بجائے توڑ رہی ہیں۔ واٹس ایپ کی ٹنگ ہمیں محفل سے کاٹ دیتی ہے، فیس بک کی گھنٹی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو غیر اہم بنا دیتی ہے اور ای میل کی بیپ ہمیں گھر کے سکون سے دفتر کے کاموں کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ ان آوازوں نے ہمیں اجتماعیت سے دور اور اپنی ذات میں قید کر دیا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن دماغ میں ڈوپامین پیدا کرتا ہے جو وقتی خوشی دیتا ہے، بالکل ویسے جیسے بچے کو ٹافی ملنے پر مسرت ہوتی ہے۔ لیکن جب یہی ٹافی بار بار ملنے لگے تو خوشی چڑچڑاہٹ میں بدل جاتی ہے۔ شروع میں نوٹیفکیشن ہمیں خوش کرتے تھے، مگر اب یہ ہمیں بوجھ لگنے لگے ہیں۔ اگر کوئی میسج نہ آئے تو ہم فکر مند ہو جاتے ہیں اور اگر بہت زیادہ آئیں تو ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بار بار فون کھول کر دیکھتے ہیں، گویا وہ پرانے وقتوں کے ڈاکیے کے انتظار کو ہر لمحہ دہرا رہے ہوں۔

نوٹیفکیشن کا ایک مزاحیہ پہلو بھی ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے فون کی ٹون ایسی رکھی ہوئی ہوتی ہے کہ خود بھی چونک جاتے ہیں۔ کوئی شیر کی دھاڑ لگا دیتا ہے، کوئی بچے کے رونے کی آواز اور کوئی ایسا شور مچا دیتا ہے کہ لگتا ہے کسی ہنگامی صورتحال کا اعلان ہوگیا ہے۔ پھر اگر یہی ٹون کسی سنجیدہ مجلس یا مسجد میں بج جائے تو انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے۔

اس سب کے باوجود خاموشی کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اصل میں خاموشی بھی ایک آواز ہے، ایسی آواز جو دل کو سکون دیتی ہے۔ یہ خاموشی کتاب پڑھنے میں، دعا کے لمحے میں یا کسی قریبی رشتے کے ساتھ بیٹھنے میں محسوس ہوتی ہے۔ مگر آج یہ نایاب ہوگئی ہے کیونکہ ہر طرف شور ہی شور ہے۔ کمرے میں بھی موبائل بجتا ہے، دفتر میں بھی میٹنگ کی گھنٹی اور سڑک پر ہارن۔ انسان کو سکون کی سانس ملنے کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔

نوٹیفکیشن نے صرف سکون ہی نہیں چھینا بلکہ رشتوں کو بھی کمزور کیا ہے۔ خاندان ایک ساتھ بیٹھتا ہے مگر ہر فرد اپنی اسکرین میں گم ہوتا ہے۔ گفتگو آدھی رہ جاتی ہے، تعلقات سطحی ہو جاتے ہیں۔ بیوی شکایت کرتی ہے کہ شوہر موبائل چھوڑ کر بات نہیں کرتا، بچے والدین سے زیادہ فون کے قریب ہیں اور دوستوں کی محفل میں بھی ہر کوئی موبائل دیکھنے کے بہانے ایک دوسرے کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہے جیسے آپ کسی کو کہانی سنا رہے ہوں اور وہ ہر دو منٹ بعد کہے "ذرا میسج دیکھ لوں"۔

اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں۔ حل یہ نہیں کہ موبائل پھینک دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی عادات کو بدلیں۔ غیر ضروری ایپس کے نوٹیفکیشن بند کیے جا سکتے ہیں۔ دن کے مخصوص اوقات میں پیغامات دیکھنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔ سونے اور جاگنے کے اوقات میں فون کو خاموش رکھا جا سکتا ہے۔ خاندان یا دوستوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے فون ایک طرف رکھا جا سکتا ہے اور کبھی کبھار ایک دن کے لیے موبائل سے دور رہنے کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب عادتیں چھوٹی لگتی ہیں مگر زندگی میں بڑا سکون لا سکتی ہیں۔

آخرکار بات یہ ہے کہ آواز انسان کی پہچان ہے۔ کبھی وہ اذان میں بلند ہوتی ہے، کبھی ماں کی لوری میں نرم۔ اصل آواز وہی ہے جو سکون اور قربت دے، باقی سب شور ہے۔ نوٹیفکیشن کی آواز نے ہمیں سکون کے بجائے شور دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم آواز اور شور میں فرق کریں اور اپنی زندگی کو خاموشی اور سکون کے قریب کریں۔ یاد رکھیں اصل زندگی ان لمحوں میں ہے جہاں پرندے گاتے ہیں، والدین دعا دیتے ہیں اور دل کی گہرائی میں سکون اترتا ہے۔ اگر ہم نے غیر ضروری شور کو زندگی سے نکال دیا تو نوٹیفکیشن کے بغیر بھی زندگی نہ صرف ممکن ہے بلکہ خوبصورت بھی ہے۔

About Adeel Ilyas

Adeel Ilyas is an ex-Pakistani formal cricketer and the owner of Al-Falaq International Schools. He is a social expert and a professor of English literature. His columns and articles focus on personal development, education, and community service, offering unique insights from his diverse experiences.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam