Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Warisan e Tariqat o Tasawuf Aur Haqiqat

Warisan e Tariqat o Tasawuf Aur Haqiqat

وارثان طریقت و تصوف اور حقیقت

شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کا قول ہے کہ "تصوف شعائر اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے"۔

جبکہ امام غزالی اپنی علمی و تحقیقی زندگی کا ماحصل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "بے شک صوفیائے کرام ہی اللہ کے راستے پر بطور خاص چلتے ہیں اور انکی سیرت ہی بہترین سیرت اور انکا اخلاق کا اخلاق سب سے پاکیزہ "۔

تصوف اور خانقاہوں پر نقد و جرح کرنے والوں کا امام غزالی نے دروازہ ہی بند کر دیا کہ صوفی کو اسی پیمانے میں ہی تولا جانا چاہیے کہ جو پابند شریعت اور حسن اخلاق کا مرقع کہ انہی سے علم و حکمت کے موتی ملتے ہیں مگر اس کے لیے اسفار لازم کہ اولیا و صوفیا کے ہاں سفر ہمیشہ حصول علم و معرفت کا ہی ذریعہ رہا۔ اس خطہ میں کہ جو شرک کا مرکز تھا میں اولیاء کرام کے قدوم میمنت لزوم سے ہی اسلام کا نور پھیلا اور اس کی بنیاد محبت، اخوت، بھائی چارہ اور رواداری پر مبنی تھی۔

اس ضمن میں حوالہ حضرت نظام الدین اولیاء کا ہو یا شاہ نقشبند، داتا گنج بخش سید علی ہجویری کا یا نائب رسول خواجہ معین الدین چشتی کا۔ لال شہباز قلندر ہوں، سلطان العارفین ہوں، بلھے شاہ ہوں یا سچل سرمست، تاجدار گولڑہ سید مہر علی شاہ، شاہ ہمدان سب کے لیے عقیدتوں کا سمندر ہے اور سب نے اپنے اخلاق اور کردار سے عوام کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان کی درگاہیں شکم سیر کرانے کا ذریعہ تھیں تو نور ہدایت کی تقسیم کا منبع بھی۔ ہر مذہب و مسلک کے لیے ان کے آستانے بھی کھلے تھے اور دل بھی۔ مگر اب بندشوں کا زمانہ ہے اور نفرتوں کا دور۔ دین سے واسطہ نہیں اور روحانیت کے لبادے میں لٹیرے۔

خطہ پوٹھوہار کی معروف روحانی درسگاہ بھنگالی شریف حاضری ہوئی درگاہ کے ساتھ وسیع تدریسی عمارت اور لنگر خانہ کہ یہی خانقاہوں کی پہچان۔ قلبی خوشی ہوئی کہ یادگار اسلاف کے امین باقی ہیں۔ صاحبزادہ سید عباس ہمدانی کے پرخلوص جذبات اور خانقاہی نظام کے احیا کے لیے انکے خیالات قابل قدر تھے۔ عمومی طور پر سجادگان کی اولادوں کا درس و تدریس اور تعلیم و تعلم سے سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مفقود مگر خوشی ہوئی کہ ہمدانی خانوادے کے چشم و چراغ نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ بلکہ حسن اخلاق کی دولت سے بھی مالا مال۔

دورہ لاہور کا پہلا پڑاو پیر اعجاز احمد چشتی کے پاس، سنت رسول سے سجا مسکراتا اور کشادہ دلی، پہلی ملاقات پر پی ایسا لگا کہ برسوں کی شناسائی ہے۔ تصنع اور بناوٹ نہ تھی اس لیے جلد ہم مزاج ہو گئے۔ انکی روایتی مہمان نوازی سے لطف ہو کر اگلی منزل دربار داتا گنج بخش تھی۔

صوفیا کہلانے کے حق دار وہی جو عجز، خلوص اور عمل کا پیکر اور جن کے ساتھ گزرے لمحے طمانیت قلب و روح کا باعث بنیں۔ وحدت کا پیغام تو ان کے پاس پہلے پی پہنچ چکا تھا ملاقات محض حاضری اور اعادہ کے لیے تھی۔ دوران سفر محترم صاحبزادہ مقصود ایوب سے عرض کی کہ اتحاد مشائخ کا فریضہ دشوار ترین ہے کیسے نبھے گا مگر انکی بات نے حوصلہ مندی عطا کی کہ اللہ پاک کے ہاں اخلاص اور صدق نیت سے کی گئی کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس کا عملی مظاہرہ پیر اعجاز چشتی فریدی سے خوش گوار ملاقات میں ہوگیا کہ اس سے قبل سید عباس ہمدانی نے بھی بھرپور سرپرستی کی حامی بھری تو اب چشتی صاحب نے حوصلہ بڑھایا۔

متحدہ مشائخ کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد ہی مسلکی نفرت کی دیواروں کو توڑنا اور مذہبی تعصب سے پاک ماحول کو پروان چڑھانا کہ جہاں تعلق کی بنیاد اخلاص، محبت، احترام اور انسانیت کے جذبے کے تحت ہو۔ فی الوقت طبقہ علما و مشائخ کی اکثریت بند خول سے نکلنے کو تیار نہیں۔ ایک کے ہاتھ اگر فتووں کی کتاب ہے تو دوسرے نے عظمت کی دیوار چن رکھی ہے۔ اتحاد کے روح رواں سید امجد حسین نقوی نے خوب صورت بات کی کہ اللہ، رسول اور قرآن کو ماننے والے ہمارے شریک سفر ہیں تو پھر مکان و زماں کی قید نہیں رہتی۔ جیسا کہ اقبال نے فرمایا کہ "ہر ملک ملک مآست کہ ملک خدائے نیست"۔

گدی نشیں دربار داتا گنج بخش پیر اعجاز ہجویری خوب صورت عمامہ پہنے نمودار ہوئے تو فرط محبت سے بازو کشا ہوتے چلے گئے۔ نسل در نسل داتا کے مہمانوں کی خدمت کا رنگ شخصیت میں جھلک رہا تھا۔ حلیم طبیعت، کشادہ دلی اور تحمل سے گفتگو سننے کا حوصلہ کہ اب تو عام آدمی کو تو چھوڑیئے طبقہ علما اور مشائخ میں بھی آداب گفتگو اور آداب اختلاف کا فقدان۔ اسی لیے تو کہا جاتا پے کہ علم کا ابلاغ اگر حکمت سے خالی ہو تو باقی فتنہ و فساد کا ہی رہ جاتا ہے اور موجودہ حالات تو امت کو جوڑنے کے متقاضی کہ معاشرے میں برداشت، رواداری، بھائی چارہ اور محبت جیسے خصائل کی جگہ رزائل نے لے لی۔

اسی کرب کا اظہار جمیعت اہل حدیث کے حافظ بابر رحیمی سے کیا تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ایم فل کا مقالہ اور اب پی ایچ ڈی کا عنوان بھی یہی۔ میاں عاصم ہجویری نے مختصر وقت میں دل کا درد پرسوز انداز میں بیان کیا۔ خانقاہی نظام کے کمزور ہونے کی ایک وجہ علم، عمل اور حقیقی تصوف کی رخصتی ہے۔ بعد ازاں محمد اعجاز ہجویری کی زیر قیادت مخدوم امم سید علی ہجویری کی بارگاہ میں اجتماعی حاضری ہوئی۔ سیدی عبدالقادر جیلانی کی غنیتہ الطالبین ہو یا سید داتا علی ہجویری کی کشف المحجوب ہر دو کے ہاں تصوف علم و عمل اور عجز و انکساری کا مرقع۔ چند موتی اصلاح احوال کے لیے پیش خدمت۔ سیدی عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں"کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، کیونکہ قول دعویٰ ہے اور عمل اس کی دلیل، قول صورت اور عمل اس کی روح"۔

کشف المحجوب میں داتا گنج بخش حضرت ابن معاذ رازی کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اجتناب کر تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے "پہلے بے عمل علماء، دوئم حق سے زبان بند رکھنے والے فقیر اور سوئم جاہل صوفی سے"۔

تصوف و طریقت کے شاہوں نے علم نافع کو طریقت کی بنیاد قرار دیا کہ اسی پر چل کر ہی معرفت اور پھر حقیقت تک رسائی ملتی ہے۔ بے عمل علماء اور جاہل صوفیا کا ان کے ہاں گزر تک نہیں۔ سو تصوف و طریقت کو جہالت سے جوڑنے والے خود بڑے جاہل۔

حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ "اے جماعت فقرا و عرفا، تم عارف بحق ہونے کی وجہ سے ممتاز ہو اور یہی شان تمہاری عزت کا سبب، سو اپنی تنہایوں میں ہشیار رہو کہ اس میں تم رب کے کس طرح قریب ہو"۔

کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہاں اہل تصوف کا بڑا مقام۔ اگر اب اہل تصوف خال خال ہیں تو طالبان حق کا بھی تو۔ نا پید۔

تصوف کی بات صوفی باصفا حضرت اقبال کے بغیر نامکمل، داتا علی ہجویری اور اکابر مشائخ سے انکی عقیدت ضرب المثل۔ یہی وجہ رہی کہ اقبال تصوف اور خانقاہی نظام کا احیا چاہتے تھے۔ اس کا اندازہ انکے کلام میں جا بجا، ذوق کی تسکین کے لیے چنیدہ کلام پیش خدمت۔۔

رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی

کرے گی داور محشر کو شرمشار اک روز
کتاب ملا و ساقی کی سادہ اوراقی

نہ چینی و عربی نہ رومی و نہ شامی
سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan