Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Tawahmat, Amliyat Aur Ghalat Ruhani Tasawurat

Tawahmat, Amliyat Aur Ghalat Ruhani Tasawurat

توہمات، عملیات اور غلط روحانی تصورات

برطانوی جریدے میں سابق خاتون اول بارے مضمون کے بعد عملیات کو روحانیات سمجھ کر طعن و تشنین کا بازار گرم کر دیا گیا۔ وجہ کم علمی اور اس ذیل میں حقائق تک عدم رسائی۔ چونکہ تصوف عمومی تجزیہ نگاران، کالم نویسان اور دانشوران کا مضمون نہیں اس لیے حقیقی تصوف اور اس نام پر دھوکہ دینے والوں کے مابین فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکا۔ کیونکہ

علم کی حد سے پرے، بندہ مومن کے لیے
لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے

تصوف تنقید کی زد میں تب آیا جب جہلا نے صوفیانہ روپ دھار کر عوام الناس کو سیرت و کردار اور تزکیہ سے بے پرواہ کر دیا کہ وہ خود بھی مجاہدات کی مشقت کے قائل تھے اور نہ پابند شریعت، برصغیر میں ان کی جعل سازیوں کے خلاف مجدد الف ثانی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ ولی اللہ نے مجددانہ کوششیں کیں۔

امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ جس نے علم فقہہ تو حاصل کیا مگر تصوف سے الگ رہے وہ فاسق ہوئے۔ جس نے فقط تصوف اختیار کیا مگر علم سے دور رہا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا اس نے حق پا لیا۔ (مرفاتہ المفاتیح)۔ اس کے بعد اولیا، صوفیا اور فقرا پر تنقید کا جواز باقی نہیں رہتا۔

اقبال جیسا فلسفی، روشن دماغ مفکر اور مدبر بھی فقر کا اسیر، وہ اسے یوں بیاں کرتے ہیں۔

فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ

علم کا مقصود ہے، پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے، عفت قلب و نگاہ

علم فقہیہ و کلیم، فقر مسیح و حکیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ

شبانی سے کلیمی تک کے سفر کے لیے مولائے روم کی طرح درویش خدا مست شاہ شمس تبریز کے سامنے زانو تلمذ طے کرنا پڑتے ہیں۔ روحانیات اور عملیات بارے وضاحت اس لیے بھی ضروری تھی کہ فتنوں کے دور میں عامتہ الناس پر تصوف کی حقیقت کو واضح کیا جا سکے کہ اولیا و طبقہ صوفیا کا غیر شرعی امور اور اخلاق رزیلہ سے دور تک کا تعلق نہیں ہوتا اور 1300 سالہ اسلامی تاریخ تصوف اس کی شاہد، بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو اسلام کی ترویج و اشاعت اولیا کرام کی ہی مرہون منت رہی۔

برطانوی اخبار کی رپورٹ نئی نہیں اس سے قبل اسلام آباد کے سینیئر صحافی برادرم اسرار احمد نے اکتوبر 2021 جبکہ بعد ازاں دی نیوز کے علاوہ دو تین ٹی وی اینکرز اور لاہور کے معروف ٹی وی رپورٹر نعیم حنیف نے اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ سب کچھ بیان کیا تھا۔ اسے اب برطانوی ٹیگ ہی سمجھا جانا چاہیے۔

خیر ہمارے پیش نظر رپورٹ کے مندرجات پر بحث ہے اور نہ کسی پر طعنہ زنی مقصود، تحریر کا مقصد اس آڑ میں تصوف پر طعن و تشنین کو روکنا اور حقیقی تصوف بارے عامتہ الناس کو دلائل قطیعہ سے آگاہ کرنا ہے۔

توہم پرستی صرف برصغیر کی بیماری نہیں بلکہ ہندؤں کے علاوہ یورپ اور براعظم امریکہ میں بھی توہم پرستی اور عملیات کا رجحان رہا۔ یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں جادوگری، فال گیری، نجوم اور بری نظر جیسے عقائد عام جبکہ امریکہ میں نوآبادیاتی دور کے پروٹسٹنٹ اور پیورٹن عیسائی بھی ہر واقعے کو ماورائی قوتوں سے جوڑتے تھے۔

World History Encyclopedia – Religion & Superstition in Colonial America کے علاوہ Cultural Diversity of Superstitions کے مطابق یورپ میں توہم پرستی کی تاریخ بہت پرانی جبکہ یورپ میں جادوگرنیوں (witches) ستاروں کی چال سے قسمت کے احوال جاننا اور طلسمات کا استعمال عام تھا۔ بری نظر (Evil Eye) سے بچنے کے لیے ان کے مذہب کے مطابق تعویذ پہننا اور Knocking on wood لکڑی پر دستک کہ بدقسمتی دور ہوتی ہے جیسے اعتقادات عام تھے۔ یورپ میں سینکڑوں عورتوں کو جادوگرنیاں قرار دے کر قتل کیا گیا۔ امریکہ میں ابتدائی پروٹسٹنٹ اور پیورٹن عیسائی ہر حادثے کو خدا یا شیطان کی کارستانی جبکہ 1692 میں بھی ایسوں کا قتل عام کیا گیا۔ کالی بلی کو آج ہی نہیں اس وقت بھی منحوس سمجھا جاتا۔ شگون کے طور پر سکے اٹھانا یا خرگوش کے پاؤں کو خوش قسمتی کی علامت مانا جاتا۔ ایسی لغویات جس قوم یا معاشرے میں بھی ہوں کا عقیدہ صحیہ سے کیا تعلق۔

جبکہ تصوف حقیت ہے ڈھونگ نہیں، استقامت ہے، غیر مستحکم نہیں، خیر ہے شر نہیں۔ امن ہے فساد نہیں، حسن اخلاق ہے بداخلاقی نہیں، تواضح و انکساری ہے تکبر و نخوت نہیں، تصوف سچ ہے جھوٹ نہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف غلو، من گھڑت اور غیر ثقہ کمالات و توجہیات، تو دوسری طرف حقیقت کا انکار۔

قرآن پاک کی سورہ مریم، الکہف، الاعراف و الانعام میں طبقہ اولیا و صوفیا کا ذکر صراحت سے موجود، مگر ضرورت صرف قرآن فہمی کی ہے۔

حقیقت تصوف کیا ہے اس پر آئمہ کے اقوال کا خلاصہ پیش کہ "خالق سے دوری کو حضوری میں بدلنے کا نام تصوف ہے"۔ تابعین نے حیا، سخا، وفا، عطا اور ایثار کو تصوف کے خوائص خمسہ قرار دیا۔

معروف صوفی بزرگ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ "ہمارا علم تصوف کتاب و سنت میں مقید ہے، جو کتاب و سنت کی حفاظت اور عمل سے محروم ہے اس کی اقتدا جائز نہیں"۔ تصوف کے باب میں معروف سکالر ڈاکٹر طاہر القادری نے دو درجن سے زائد کتب لکھیں انہیں کے گوشہ علم سے ایک اہم نکتہ اس کو گہرائی تک سمجھنے کے لیے پیش خدمت، کہ ظاہر کے احکام کتب فقہہ اور اعتقادی واجبات کتب عقیدہ سے مگر رزائل باطنی (حسد، تکبر، ریا، بہتان، جھوٹ، تنگی، کینہ، تعصب، ہوس، خودپسندی) کا علاج کتب فقہہ سے ملتا ہے اور نہ مسائل اعتقادیہ سے۔ ان سے بچنے کا طریق تصوف بتاتا ہے۔ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر" مگر نیت میں اخلاص کی راہ تصوف بتاتا ہے۔

مسند امام احمد، ابن حبان میں آقا کریم کی حدیث مبارکہ جو ابو مالک اور حضرت عمر سے مروی کا مفہوم کہ "اولیا و صلحا قیامت کے دن انبیا اور شہدا کے ہم نشیں ہوں گے"۔

سید علی ہجویری کی کشف المحجوب، سید عبدالقادر جیلانی کی غنیتہ الطالبین، ابن العربی کی فصوح الحکم، امام قشیری کا رسالہ قشیریہ، امام ابن تیمیہ کی مجموعتہ الفتاوی، امام غزالی کی کیمیائے سعادت طالبین تصوف کی خوب راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam