Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Rawaiyon Mein Adam Bardasht Aur Morarji Desai

Rawaiyon Mein Adam Bardasht Aur Morarji Desai

رویوں میں عدم برداشت اور مورار جی ڈیسائی

مرار جی ڈیسائی الیکشن جیت کر وزیر اعظم نامزد ہو چکے تھے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی انتخابات ہارنے کے بعد افسردہ تو تھیں ہی مگر اس سے زیادہ انہیں اپنی اور اہل خانہ کی گرفتاری کا خوف تھا کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے سیاسی مخالفین کے لیے زمین تنگ کر رکھی تھی۔

معروف بھارتی صحافی نیرجا چوہدری نے اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ وزیر اعظم کو اندرا کی بیرون ملک جانے کی بھنک پڑھ گئی کہ انہوں نے ایک بڑی کاروباری شخصیت سے اپنے بچوں کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے انکا پرائیویٹ جیٹ مانگ رکھا تھا۔ ڈیسائی جے پرکاش کے ہمراہ اندرا گاندھی سے ملاقات کو جا پہنچے۔ وزیر اعظم نے اندرا سے بچے بیرون ملک بھجوانے کی وجہ پوچھی تو اندرا نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈیسائی نے تاریخی الفاظ کہے کہ سیاسی اختلافات ذاتی پرکاش میں نہیں بدلے جائیں گے اور میرا آپ کے خاندان کو انتقام کا نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ڈیسائی نے اپنا قول نبھایا مگر بعد کے حکمران سیاسی رواداری اور برداشت کی روایت کو برقرار نہ رکھ سکے۔

ہمارے ہاں بھی جمہوری ادوار میں مخالفین کو دیوار سے لگانے کا عمل جاری ہے جو بھٹو دور میں شروع ہوا تھا۔ ضیا دور میں اور پھر ن لیگ کے دور میں محترمہ بے نظیر زیر عتاب رہیں تو بعد ازاں پی پی پی حکومت نے بھی بدلے اتارے۔ یہ سلسلہ پی ٹی آئی کے دور حکومت تک یک طرفہ چلتا رہا۔ عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی مانگے تانگے کی حکومت میں اتنا دم خم تو تھا نہیں کہ وہ کپتان کو گرفتار کر سکتے کہ اس وقت وہ مقبولیت کی معراج پر تھے۔ کپتان کے جارحانہ مزاج اور غیر لچک دار رویہ کو دیکھتے ہوئے شاید دو سال قبل میں نے اپنے کالم میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ کپتان سیاسی مخالفین سے نہیں خود اپنے بوجھ سے ہی گرے گا۔ پھر وہی ہوا کہ عوامی قبولیت کے زعم میں پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی کرکے خود عتاب کو دعوت دے دی۔

یہ درست کہ سیاسی انتقام کی روش ہماری سیاسی تاریخ میں بہت پرانی کہ جمہوریت کے نام پر ہر وزیر اعظم میں مطلق العنانی کی تڑپ رہی۔ سیاسی افراتفری نے ملکی معیشت اور استحکام کو بھی داؤ پہ لگائے رکھا۔ سیاسی مخالفت ذاتی انتقام میں بدلتی رہی۔ بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارے سیاسی کلچر میں رواداری، برداشت اور عدم انتقام کی روایت پنپ ہی نہ سکی جس کے نتیجے میں غیر سیاسی قوتیں فعال اور طاقتور ہوتی رہیں۔ اب بھی کہ جب حالات نہایت دگرگوں آئے روز کوئی نیا بحران جنم لیتا دکھائی دیتا ہے۔ سائفر کی گونج ابھی باقی کہ ایک کلاسیفائیڈ دستاویز کو کس طرح عوامی اجتماعات میں زیر بحث لا کر سفارتی محاذ پر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کی گئیں۔

قارئین اور بالخصوص پی ٹی آئی کے دوستوں کو شاید نہیں، یقیناً اس بات کا علم نہیں کہ امریکی مراسلہ سے قبل اس سے کہیں سخت زبان میں فرانس اور برادر عرب ملک کی جانب سے ایسے مراسلے موصول ہو چکے تھے۔ وزیر اعظم کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے پاکستان اور برادر اسلامی ملک کے تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ مگر ایسے مراسلوں کا کبھی ذکر ہوا اور نہ اسے کبھی موضوع گفتگو بنایا گیا، کہ دانش مند قومیں سفارتی جنگ سفارتی محاذ پر ہی لڑتی ہیں، مگر! اس حقیقت سے انکار نہیں ہونا چاہیے کہ کشیدہ ماحول میں بھی معاملات کو معمول پہ لانے کوششیں جاری رہتی ہیں۔ مگر اب کی بار بحران صدر مملکت کی ٹویٹ نے پیدا کر دیا۔

سرد و گرم چشیدہ ڈاکٹر علوی کہ جنہیں پی ٹی آئی کی عمومی لیڈر شپ کے برعکس ٹھنڈے مزاج کا مالک اور معاملہ فہم شخصیت سمجھا جاتا تھا کی طرف سے ٹویٹ نے بھونچال بپا کر دیا۔ جو بادی النظر میں وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش۔ اس آئینی بحران نے تمام سیاسی، آئینی ماہرین سمیت مختلف اداروں اور میڈیا کا رخ عوامی مسائل سے موڑ ہی دیا۔ عوام پر کبھی پٹرولیم تو کبھی بجلی کے بم گرائے جا رہے ہیں۔ بلوں کے بھاری بھر کم بوجھ تلے دبے عوام کی چیخیں ذمہ داران کو سنائی نہیں دے رہیں یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر معاشی تجزییے کرنے والوں کو شاید اندازہ نہیں کہ حالات کتنے سنگین ہو چکے ہیں۔

یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مایوسی اور غربت کے مارے لوگ بڑی تعداد میں خودکشیاں کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ حکومتی مشینری و ادارے تو صدر کی ٹویٹ اور سائفر کی قانونی موشگافیاں حل کرنے میں منہمک ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت جو پہلے ہی عوام کے سارے کس بل نکال چکی تھی۔ اور اب شکنجہ مزید کسنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر عوام کے صبر کو دیکھتے ہوئے جبر کے فیصلے اس شعر کے مصداق جاری

ہے مشق ستم جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

کہ ان کی قسمت میں شاید ابھی اور مشقتیں جھیلنا باقی۔ بجلی صنعت و حرفت اور زندگی گذارنے کے لیے ناگزیر مگر جدید دور کے نااہل حکمرانوں نے بجلی کا استعمال کاروباری طبقات، متوسط اور غریب شہریوں کے لیے ممنوع بنا دیا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی کو حکمران اپنے طریق سے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ مگر اب فضا میں آندھیوں کے اثرات اور ذہنوں و سینوں میں پکتا لاوہ باہر نکلنے کو بے تاب۔

معاشرہ میں مراعات یافتہ طبقات، مفت پٹرول اور بجلی استعمال کرنے والوں کے خلاف عوامی غیض و غضب اپنے عروج پر۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت نے جمہور کو زندہ درگو کر دیا۔ حکمران طبقات، حکومتی اداروں اور طاقتوروں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ عام شہری اس وقت شدید دباؤ کا شکار کہ دہاہیوں سے ایک طبقہ مراعات یافتہ اور عوامی ٹیکسسز پر آسائشات سے بھرپور زندگی گذار رہا ہے۔ جبکہ چھوٹے کاروباری طبقات اور مڈل کلاس کے حالات ہر آنے والے دن کے ساتھ بدتر ہو رہے ہیں۔

جھوٹے نعرے اور بلند و بانگ دعوؤں کے سراب کے بعد اب یہ کہنا غلط نہیں کہ سیاست دان کو وہی اسٹیبلشمنٹ اچھی اور محب وطن لگتی ہے جو انکی سرپرست، وہی الیکشن اور الیکشن کمشن قابل قبول جس سے اسکی کامیابی کی ضمانت ملے وہی عدلیہ غیر جانبدار جو انکے حق میں فیصلے دے، وہی الیکٹیبلز باکردار، وفادار و غوامی خدمت گار جو انکی جماعت سے منسلک اور وہی سادہ لوح و بے وقوف ووٹرز عقل مند نظر آتے ہیں کہ جن کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ ایوان اقتدار تک پہنچیں۔

معاشی پس ماندگی تو پہلے ہی تھی مگر اس کے ساتھ شعور کے نام پر جنم لینے والی ذہنی پس ماندگی نے معاشرتی ماحول کو مزید مکدر کر دیا۔ سوچ میں تبدیلی کے نام پر نفرت تعصب، بدتہذیبی اور بداخلاقی تیزی سے پروان چڑھی جس نے ہم سے ہماری روایات اور اخلاقی اقدار چھین لیں۔ گھٹن زدہ ماحول سے نکالنے، انتقامی سیاست کے خاتمہ اور نفرت و تعصب کی خلیج کو پاٹنے کے لیے کسی کو ڈیسائی کا کردار ادا کرنا ہوگا اور اب ضرورت میثاق سیاست یا میثاق جمہوریت کی نہیں میثاق پاکستان کی ہے۔

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza