Qaumon Ki Tareekh, Taliban Aur Kaptan
قوموں کی تاریخ طالبان اور کپتان

اسرائیل جس طرح دنیا بھر میں جارح، وعدہ خلاف اور ناجائز ریاست کے طور پر معروف، اسی طرح آنے والی اقوام طالبان کو 40 پینتالیس سال افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کے جواب میں بھارت سے دفاعی معاہدہ، پاکستان مخالف قوتوں اور دہشت گردوں سے دوستی پر کیا لقب دیں گی؟ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
معروف کالم نگار سعود عثمانی نے صائب مگر درست بات کہی کہ" افغانستان پڑوسی ملک ضرور ہے مگر برادر کبھی نہ تھا اور اگر افغانستان میں دینی حمیت ہوتی تو لاکھوں افغان مہاجرین کو دربدر چھوڑنے کی بجائے انکی باعزت آبادکاری کی سعی کی جاتی"۔
ہمارے ہاں تحریک طالبان پاکستان ہمدرد موجود مگر زیادہ تر کا تعلق شدت پسند مذہبی طبقہ سے، حیران کن طور سیاسی جماعت کا ان کی طرف جھکاو قابل تشویش۔ اب سچائی کی تلاش عام ہی کیا اچھے بھلے مذہبی لوگوں کا بھی درد سر نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ عام تو عام مذہبی رجحانات کے حامل بھی جھوٹ اور بہتان کے ابلاغ میں پیش پیش۔ حالانکہ ایسا عمل جھوٹ اور بہتان کے زمرے میں آتا ہے اور جس کی قرآن و حدیث میں سخت وعید۔ خیر یہ تو کلمات خیر تھے کہ جن کا اعادہ اپنے ہم وطنوں کے لیے کرنا لازم۔
یادش بخیر سال 2014 کا تھا اور مہینہ جنوری کا، کہ قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعظم نے اپوزیشن کی اپیل پر امن کو موقع دینے کے لیے ٹی ٹی پی سے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، سابق سفیر افغانستان رستم شاہ مہمند، عرفان صدیقی اور میجر (ر) محمد عامر حکومتی کمیٹی کے ممبران جبکہ ٹی ٹی پی نے بھی اگلے روز چار نام پیش کئے۔ جن میں پہلا نام ہی عمران خان کا دیگر میں مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالعزیز اور جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم شامل تھے۔ ہر پاکستانی شہری کے لیے ٹی ٹی پی کی طرف سے عمران خان کی اپنے معاملات کے لیے نامزدگی حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی تھی۔ خیر پارٹی سے مشاورت کے بعد اگرچہ انہوں نے اپنی جگہ رستم شاہ مہمند کو ہی پی ٹی آئی کے نمائندہ کے طور پر نامزد کیا مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے کپتان کے افکار کو عیاں کر دیا۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان نے برسوں طالبان کو مذاکرات کے ذریعے راہ راست پر لانے کی کوشش کی، سعودی عرب اور چین نے بھی طالبان حکومت کو دہشت گردی کے مراکز بند کرنے کو کہا حتی کہ گزشتہ سال مفتی تقی عثمانی کی زیر قیادت علما کے وفد کو طالبان حکومت سے افہام و تفہیم کے لیے بھیجا گیا مگر سب بے سود۔ گزشتہ دنوں روس میں آٹھ ممالک کے مندوبین نے بھی افغان حکومت کو متنبہ کیا مگر انہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اب تو تمام اخلاقی و سفارتی حدیں پار کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیکر نہ صرف کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی بلکہ اپنی بھارت نوازی کا بھی ثبوت دیا۔ مگر یہ واضح ہے کہ عام افغان شہری پاکستان سے اور پاکستانی عوام ان سے رشتہ اخوت میں بندھے ہیں لیکن انکی شنوائی ہے اور نہ پالیسی سازی میں انکا کردار۔ پاکستان کے ہر شہری کے جذبات محسن کش قیادت اور موجودہ افغان حکومت کے لیے ہیں۔
چین میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی عہد و پیماں کیے گئے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرے گی۔ مگر ایفائے عہد کا ان سے کیا واسطہ۔! کہ جو قوم بیت اللہ شریف میں کیے گئے حلف سے مکر جائے ان سے کسی بھی قسم کے اقدام کی توقع۔
یہ سچ بھی ہے اور حقیقت بھی کہ خیبر پختون خواہ کے لوگ افغانستان میں پناہ گزین فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں سے سب سے زیادہ متاثر اور وہ 40 سال سے افغان مہاجرین کی میزبانی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں کی حکومت دہشت گردوں سے تعلق کی حامی۔ صوبہ کے پی میں اگر عام شہری اور دیہاتی کی زندگی دہشت گردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہے تو حکومت اور ریاست کا فرض کیا بنتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے اور نہ زیادہ سوچ بچار کی ہاں مگر قومی حمیت اور غیرت لازم!
اب جبکہ پاک بھارت، ایران اسرائیل جنگ اور غزہ امن معاہدہ کے بعد نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطی کا منظر نامہ بھی تبدیل ہو چکا آخر کونسی قوتیں ہیں جو بدلتے علاقائی اور عالمی منظر نامہ کو قبول کر رہی ہیں نہ اقوام عالم میں پاکستان کے بڑھتے نفوذ کو؟ دو ہی نام سامنے آتے ہیں بھارت اور اسرائیل اور اب افغانستان انکا معاون۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف قومی شعور بیدار کرنا وقت کی ضرورت اور نئی نسل اور قوم کی نظریاتی راہنمائی کے لیے اسے نصاب کا حصہ بنایا جانا لازم۔ انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کی سب سے قدیم اور بڑی جامعہ الازہر نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا دیشت گردی کے خلاف مبسوط فتوی اپنے نصاب کا حصہ بنایا کہ اس میں صاحب کتاب نے فتنہ الخوارج کو بڑی شرح و بسط سے بیان کیا۔ اس کے لیے قرآن، احادیث نبویہ آثار صحابہ اور محدثین کے اقوال کا سہارا لیا گیا اب کئی مسلم و غیر مسلم ممالک میں یہ کتاب متداول۔
ہارڈ اسٹیٹ ڈاکٹرائن کی راہ پر گامزن پاکستان اگر ایران کی غلطی کی اصلاح کر سکتا ہے اور اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن بھارت کے ایڈوینچر کا دندان شکن جواب دے سکتا ہے تو طالبان کی طرف سے جارحیت اور 23 جوانوں کی شہادت کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے؟
حرف آخر! پر امن سیاسی جدوجہد پی ٹی آئی کا حق۔ جس طرح بھی کرے اور جتنی کرے، کپتان جس کو چاہیں وزیر اعلی نامزد کریں، اپوزیشن لیڈر بنائیں یا قائد ایوان کہ یہ انکا استحقاق، حکومت کی مخالفت بھی ڈٹ کے کریں اور دیگر مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی رگڑا لگائیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی جماعت کا علم بھی بلند رکھیں اور کارکنان کا مورال بھی۔ اقتدار کے حصول کی آرزو بھی کریں اور آئینی ژدود میں رہ کر جد و جہد آئینی حدود بھی، سب مستحسن! مگر کسی فرد کی مخالفت میں ٹی ٹی پی سے دوستی قبول ہے، نہ طالبان نواز بیانیہ اور نہ پاکستان کے مقابل کسی دوسرے ملک کو ترجیح۔ پاکستانی اپنے افکار و نظریات کی راہنمائی قائد اعظم و اقبال سے لیتے ہیں نہ کہ گمراہ طالبان سے، ہماری وفاداری پاکستان ہے نہ کہ افغانستان سے۔ پاکستان ہماری ریڈ لائن۔ اب یہ سیاسی جماعت کے پیروکاروں پر منحصر کہ وہ اسلامی نظریات کا فروغ چاہتے ہیں یا خارجی فکر پر مبنی گمراہ کن سیاسی پراپیگنڈا کا۔

