Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Naehliyat, Corruption Se Bara Challenge

Naehliyat, Corruption Se Bara Challenge

نااہلیت، کرپشن سے بڑا چیلنج

عقلمند اور بے وقوف میں کچھ نہ کچھ عیب ضرور ہوتا ہے مگر عقلمند اپنے عیب کو خود دیکھتا ہے اور بے وقوف کا عیب دنیا دیکھتی ہے۔ شیخ سعدی نے درست ہی کہا ہمیں اس ترازو میں اپنے آپ، سیاسی قیادت اور پوری قوم کو تولنا چاہیے کہ یہی اصلاح کا طریق اور ترقی کا راز۔

نااہل اگر خود بدعنوان نہ بھی ہو مگر بربادی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جس طرح قابل اور دیانت دار سیاسی قیادت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری اسی طرح اچھے اوصاف اور بلند کردار کے حامل افراد اداروں کی کارکردگی اور ساکھ کے لیے ناگزیر۔ مگر نہایت دکھ اور کرب کہ نہ صرف عوام بلکہ دنیا بھر میں ہماری ریاست کی عمومی ساکھ بدعنوانی سے معنون، عوام میں بدعنوانی رواج پا چکی، ادارے اس کے پروردہ اور نظام انصاف بانجھ۔ تو پھر کرپشن کروڑوں ڈالرز کی ہو یا اربوں روپے کی، فرق نہیں پڑتا کیونکہ ریاست اس سے لاتعلق اور عوام بے حس ہو جاتی ہے۔ جبکہ احتساب ہر دور میں مخالفین کی حد تک محدود۔ ایسے میں کرپشن نہ کرنے والے پر محکمہ بھی تنگ کر دیا جاتا ہے اور زمین بھی سکڑنے لگتی ہے۔

کرپشتان سے مہذب کرپشن کی بڑی خبر کے پی میں سینٹ آف پاکستان کا انتخاب۔ اس میں نہ صرف مخالف و متحارب جماعتوں کا اتفاق اور شیر و شکر ہونا معنی خیز اور سب سے بڑھ کر جمیعت علمائے اسلام سمیت مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا سینٹ کے لیے حسن و معیار انتخاب۔ یہ کھلی حقیقت کہ عددی اعتبار سے کے پی میں وہاں کی حکمران جماعت اس سے زیادہ نشستیں لے سکتی تھی! اس پہ پس پردہ کیا ہوا جاننے والے جانتے ہیں ہمیں بلاوجہ سر کھپانے کی کیا ضرورت۔ پی ٹی آئی سینٹ آف پاکستان میں تعلیم یافتہ بے داغ اور اہل افراد کو بھجوا کر سیاست میں مثال قائم کر سکتی تھی، مگر ارب پتی افراد کو ٹکٹ بانی کی ہدایت پر جاری ہوئے یا کمیٹی نے کمیٹی ڈالی؟ ان نامی گرامیوں کو نوازا گیا جو کوہستان سکینڈل میں براہ راست ملوث۔ کارکنان چیختے رہ گئے مگر شنوائی مال و زر والوں کی ہوئی۔ کوہستان سکینڈل بارے آڈیٹر جنرل رپورٹ نے پول کھولا تو انصاف والے ناانصافی کرتے پائے گئے۔

آڈیٹر جنرل کی ایک اور رہورٹ جس میں صرف ایک ماہ میں بجلی صارفین سے 47 ارب 81 کروڑ اضافی بلوں کی مد میں لوٹے گئے۔ گزشتہ سال بھی میٹر ریڈنگ کی مد میں ہیرا پھیری پر 60 ارب سے زائد کا گھپلا ہوا گو کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ مفلوک الحال عوام کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف کہ گھپلا صرف 47 ارب 81 کروڑ کا ہی تو ہے۔ پھر گھپلے کرنے والوں کو کونسا سولی پر چڑھا دئیے گئے کہ آئندہ کوئی گھپلا کرنے کی جرات کرے اور گھپلے تو وہاں ہوتے ہیں جہاں کچھ ہو تو عوام کی جیبوں میں مال تھا تو ہی گھپلا ہوا نا!

ایک اور خبر کی جانب گرچہ وہ کوئی چونکا دینے والی تو نہیں کہ ان کو معاف نہ کرنے کے عہد و پیماں اس بھولی عوام سے ہماری پیدائش سے قبل 1971 سے ہوتے چلے ا رہے ہیں۔ عوام سنتے چلے آ رہے ہیں۔ 2024 سے مئی 2025 تک ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی اور کرپٹ شوگر مل مالکان، کہ جنہیں گزشتہ 50 سال سے قانون میں کسنے کی کوشش کی جا رہی تھی، کے لیے آج تک کوئی حکومت بھی شکنجہ تیار نہ کر سکی ہاں البتہ شوگر انڈسٹری نے حکومتوں کو ناک رگڑوانے اور عوام کو شکنجے میں کسنے کی خوب مشق کر رکھی ہے اور ریاست بھی ان کے آگے بے بس، پہلے اس وعدہ پر کہ چینی کی قلت ہوگی اور نہ قیمت بڑھے گی، برآمد کرکے پیسے کمائے گئے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو ہمارے ہاں ایفا ہو۔ شوگر مافیا بھی سوچتا ہوگا کہ پہلے کون سا ایشین ٹائیگر بننے، تبدیلی کا یا روٹی کپڑا مکان کا وعدہ ایفا ہوا جو ھم کریں سو انہوں نے برآمد کرکے مال بنایا اور اب 7 لاکھ 65 ہزار ٹن چینی درآمد کرکے عوام کو لوٹا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق شوگر انڈسٹری کو نوازنے کے لیے چار قسم کے ٹیکسز کو زیرو کی سطح تک لایا گیا اب قلت کے پیش نظر چینی درآمد کرنا حکومت کی مجبوری اور بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوئے گا سب کو معلوم۔

میگا کرپشن سے جڑی ایک اور خبر مگر پریشان کن ضمیر زندہ والوں کے لیے، پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سمگلنگ کو روکنے میں حکومتی اداروں کی نااہلی ملک کو گھن کی طرح کھا گئی اور بدعنوانی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا اسی طرح ناممکن دکھائی دیتا ہے جیسے پانی کی قلت کے باوجود کالا باغ ڈیم کا بننا۔ تھوڑی نہیں ساڑھے تین کھرب کا نقصان ریاست کو وہ بھی ہر سال۔ اس پر حکومتوں کی بے حسی سے لگتا ہے کہ نقصان کا ہمیں چسکا پڑ چکا جیسے قرض کی مے کا۔ اصلاح کی کوشش تو دور کی بات سوچنا تک گناہ متصور۔ جتنی بڑی معاشی درندگی اتنی گہری خاموشی۔

میری نظر میں نااہل سربراہان کی کرپشن سے زیادہ سنگین اور فوری حل طلب مسئلہ ہے کہ جب تک بزدار ٹائپ سربراہان اداروں پر مسلط ہیں کرپشن ختم ہو سکتی ہے اور نہ مالیاتی خسارہ۔ رہی بات کہ کیا بدعنوانی صرف اشرافیہ تک ہی محدود؟ جواب نہیں، کہ عوام بھی اس میں پوری طرح حصہ دار، یہ من پسند راہنماوں کی بدعنوانی، جھوٹ، دغا بازی اور بدکرداری کھلی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کرکے فکری کرپشن کی بنیاد رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پہ لڑتے بھرتے ہیں۔ ان کی یہی غیر مشروط وفاداری سیاسی راہنماوں قیادت کو دھڑلے سے کرپشن پر جری کرتی ہے۔ اسی لیے سینٹ الیکشن ہوں یا قومی انتخابات ٹکٹوں کی بولیاں لگتے دیکھ سن کر بھی گونگے بہرے بنے رہتے ہیں۔

ان حالات میں کہ جب قدرت نے پاکستان کو عالمی سطح پر باوقار بنا ہی دیا ہے اور مسلح افواج نے پوری قوم کو نیا عزم اور حوصلہ عطا کیا ہے تو ان حالات میں اداروں کی تطہیر اب ضرورت نہیں ناگزیر ہو چکی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آرمی چیف کی تجویز پر قومی ترقی کے لیے قائم ادارہ کی پہلی ترجیح اداروں کی تطہیر اور ان میں دیانت دار اور اہل ذمہ داران کی تعیناتی ہو جائے۔ سابق ائیر مارشل ارشد ملک نے مختصر مدت میں پی آئی اے کے معاشی بدمعاشوں کو نکیل ڈال کر ادارے کا قبلہ درست کرکے کرپشن ختم اور ادارہ کی ساکھ بحال کرکے اپنی اہلیت ثابت کی تھی مگر نظام انصاف کو یہ تعیناتی خلاف ضابطہ لگی۔

صد شکر کہ اس وقت پاکستان سٹیل ملز ہو یا یوٹیلیٹی اسٹورز کارہوریشن، ریلوے ہو یا پی آئی اے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہوں یا پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان یا دیگر سرکاری ملکیتی ادارے کہ جن کا سالانہ خسارہ 5800 ارب تک پہنچ چکا ہے میں تعیناتیاں آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔

حرف آخر سلگتے جذبات کو آگ پکڑنے سے قبل، سیاسی حکومت سے تو توقع نہیں کہ خائن انہی کے پروں کے نیچے پناہ لئے بیٹھے ہیں جن کی براہ راست ذمہ داری نہیں بنتی وہ اگر از خود اداروں کی تطہیر اور شاہانہ کلچر کے خاتمہ کے لیے یک سطری فرمان جاری کرا دیں تو یہ اس مملکت خداداد پر بڑا احسان ہوگا اور ان کا درد سر بھی ختم۔ کہ اہل اور دیانت دار سربراہان اپنا اور ادارے کا وقار بحال کرنے کے لیے جان تک لڑا دیتے ہیں۔ کہ یہ مٹی بڑی زرخیز ہیں صرف نم کی ضرورت اور یہ نم، فقط اہل و دیانت دار افراد کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali