Mukalma Ki Riwayat, Aman Ki Zamanat
مکالمہ کی روایت، امن کی ضمانت

تہذیب و تمدن اور علمی ترقی کے دور میں بھی جب انسان دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح اور عقائد پر حملہ آور ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ دور جہالت کی پرچھائیاں ابھی باقی ہیں۔ فکری اختلاف کا عدم برداشت یقیناََ شعور کی سطح پر سوالیہ نشان ہی تو ہے۔
حالانکہ تنوع، رواداری اور برداشت اس خطے کی پہچان تھی کہ یہاں اسلام کی روشنی، احیا اور ترویج صوفیا کرام کے قدوم میمنت لزوم کے باعث ہوئی مگر افغان جنگ کے بعد اندرونی و بیرونی عوامل کے زیر اثر ہمارا خطہ انتہا پسندی کی زد میں آیا اور یہ لہر اتنی زور دار اور شدید تھی کہ ایک وقت تو اس نے ریاست کے سبھی ستونوں کو ہلا ہی ڈالا تھا۔
علامہ اقبال اپنی کتاب The reconstruction of religious thought in Islam میں رقم طراز ہیں کہ "مذہب محض رسمی معاملہ نہیں، یہ نہ صرف ایک خیال، احساس اور عمل ہی نہیں۔ بلکہ یہ مکمل انسان کا اظہار ہے"۔ اقبال کے ان افکار کی آسان تشریح اور اس کا ابلاغ وقت کی ضرورت تھی مگر اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی۔
حقیقت تو یہ کہ امن و آشتی، برداشت، عفو و درگزر، باہمی احترام، ایثار و، قربانی، انسان نوازی، رواداری، مساوات، عدل و انصاف مذہب اسلام کی پہچان، مگر شدت پسندوں نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے میں کسر نہ چھوڑی بالخصوص فتنہ الخوارج نے۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی لہر جو 80 کی دہائی میں شروع ہوئی سے ہزاروں افراد مسلکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ اس وقت علامہ شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور علامہ ساجد نقوی کی کوششوں اور بصیرت نے نفرتوں کی شدت کو ٹھنڈا کیا گو کہ یہ کوششیں غیر مربوط مگر اس جانب پہلا قدم۔ البتہ شیخ السلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف علمی، تحقیقی، فکری، نظریاتی اور تنظیمی محاذ پر بند باندھا۔ انکی کتب اب عالم عرب و یورپ میں بطور حوالہ بالخصوص 600 صفحات پر مشتمل دہشت گردی اور فتنہ الخوارج کے عنوان سے فتوی کو عالمی پذیرائی ملی۔
خوش بختی یہ کہ ان کے صاحبزداگان بھی اسی راہ کے مسافر جبکہ انکی تنظیم بین الاقوامی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں سب سے نمایاں۔ مسالک کے مابین شدت پسندی کچھ تھمی تو بین المذاہب انتہا پسندی نے سر اٹھایا۔ اندرونی دہشت گردی سے مساجد، مدارس، امام بارگاہیں، تعلیمی ادارے، کوچہ و بازار۔ سرکاری و نجی ادارے جبکہ مذہبی انتہا پسندی نے غیر مسلم اقلیتوں کا ہی نہیں پاکستانی مسلمانوں کا ناک میں دم کر دیا۔
یہ درست کہ پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ بیرونی طاقتوں کے ایما پر رہا۔ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے موجودہ دور میں اسکی مثال کہ ہر دو کے پیچھے بھارت اور اسرائیل کا شیطانی دماغ اور سرمایہ جبکہ افغانستان ان کا سہولت کار۔ انتہا پسندی کی نئی اور خطرناک چال پاکستان مخالف قوتوں کی سوشل میڈیا مہم جس میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر ہمارے نوجوان پھنستے چلے جا رہے ہیں۔
شدت پسندانہ نظریات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی زہر قاتل اور پاکستان کی نئی نسل کی نظریاتی، فکری، روحانی و اخلاقی تربیت کا قومی سطح پر اہتمام ہے اور نہ تعلیمی اداروں کا نصاب اور ماحول ایسا کہ نسل نو کی کردار سازی ہو سکے۔ شدت و انتہا پسندی، انحطاط اور فکری و نظریاتی زوال کے اس دور منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کا انعقاد رواداری، برداشت اور مکالمے کی دم توڑتی روایت میں تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔
برادرم سہیل رضا کہ جن کی پہچان اب بین المذاہب ہم آہنگی کے سفیر کے طور پر بن چکی نے اس بارے مواد فراہم کیا۔ منہاج یونیورسٹی میں ہونے والی بین المذاہب کانفرنس کے متنوع عنوانات اتنے جاندار و زور دار جبکہ اطراف و اکناف عالم سے ہر مذہب کے سکالرز اور مذہبی شخصیات کی شرکت تقریب کو چار چاند لگا رہی تھی۔ سو تقریب میں عدم شرکت کی خلش نے دل میں گھر کیا۔ قحط الرجال کے دور میں جامعہ کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین نہ صرف نسل نو بلکہ نجی و سرکاری یونیورسٹیوں کے لیے رول ماڈل کہ انہوں نے ایسے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا اور تقاریب منعقد کرائیں کہ ہمارے معاشرے میں جن پر بات ممنوع۔ علم کے ساتھ حکمت انہیں ورثہ میں ملی۔ یقیناََ ایسی نوجوان قیادت ملک و ملت اور عالم اسلام کا سرمایہ اور ریاست کو ایسے علمی، روشن خیال اور اعلی دماغ سے راہنمائی لینی چاہیے۔
مختلف سیشنز کے عنوانات میں امن ہم آہنگی اور اسلامی تعلیمات، مذہبی بیانیہ کے ذریعے انتہا پسندی کا خاتمہ، میثاق مدینہ کی آئینی تفہیم، قیام امن ریاستی استحکام اور انتہا پسندی کے تدارک کا آئینی لائحہ عمل، مذہبی کثرت پسندی اور رواداری کا فروغ، معاشرتی بہتری کے لیے سیرت نبوی سے امثال، مذہبی و فکری انتہا پسندی اور ابن رشد کا فلسفہ تطبیق، خواتین، خاندان اور انتہا پسندی کی روک تھام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، جیسے فکری و تحقیقی موضوعات کہ جن پر ہمارے جامعات ہی کیا قومی سطح پر بھی کبھی مکالمہ ہوا اور نہ ابحاث جس سے ہمارے ہاں ان موضوعات پر ہونے والی تحقیق، تطبیق اور ریسرچ کے اثرات و ثمرات معاشرے میں فروغ پذیر نہ ہو سکے۔
پاکستان علما کونسل کے چئیرمین علامہ طاہر اشرفی نے اپنی گفتگو میں درست ہی کہا کہ بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مکالمہ لازم اور تحریک منہاج القرآن اس کے لیے موثر پلیٹ فارم۔ منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہونے والی بین المذاہب کانفرنس میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سی لنکا، تھائی لینڈ، یو اے ای، ترکی، امریکہ، برطانیہ، آسٹریا، کینیا اور مصر سے عیسائی، سکھ، ہندو، بدھ مت و دیگر مذاہب کے سکالرز اور مندوبین نے اپنے اپنے مقالہ جات پیش اور طے شدہ موضوعات پر خطابات کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی، اخلاقی و معاشرتی مسائل کا حل سیرت نبوی سے تلاش اور شامل نصاب کیا جائے، منہاج یونیورسٹی اس ضمن میں قانون نافذ کرنے اور تعلیمی اداروں کو تحقیقی مواد فراہم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
پس تحریر۔ مکالمہ امن کی ضمانت اور اس ہنر کو مہارت سے بروئے کار لانا صاحبان اختیار کا ذمہ۔ افغان رجیم سے طویل مذاکرات اس کا اظہار کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کا حل چاہتا ہے۔ معاملات میں پیش رفت خوش آئند اس امید کے ساتھ کہ طالبان رجیم بھی معاملہ کی حساسیت کو سمجھے گی۔

