Thursday, 20 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Malik Riaz Tanha Bojh Kyun Uthayen

Malik Riaz Tanha Bojh Kyun Uthayen

ملک ریاض تنہا بوجھ کیوں اٹھائیں

قدرت جب مہربان ہونے لگتی ہے تو رزق کے دروازے کھلتے، غربت کے بادل چھٹنے اور دنیاوی اسباب جھکنے لگتے ہیں۔ مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ آتا ہے اور ان سے نکلنے کا سلیقہ۔ مرلے، کنالوں اور ایکڑوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی کھنڈرات آباد اور کامیابیوں کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔

یہ تھی ملک کے سب سے بڑے اس پراپرٹی ٹائیکون کی مختصر داستان کہ جسے بجا طور پر پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا بانی کہا جاتا ہے۔ یقیناً ان کامیابیوں کے پیچھے مشقتوں کی طویل داستان اور چھپی صلاحیتوں کا ایک طوفان۔ دور اندیش، اہل و دیانت دار حکمران ایسی غیر معمولی خصوصیات کے حامل افراد کے وسائل کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔

اس کے عوض ان کی جائز کاروباری رکاوٹوں کو دور اور انہیں بزنس فرینڈلی ماحول مہیا کیا جاتا ہے جس سے مسابقت کا رجحان بڑھتا ہے سرمایہ کاری کو فروغ اور متوسط و عام طبقات پر بھی معاشی ترقی کے دروازے کھلتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس اور اس کا اظہار کراچی کے صنعتکار اور چین سمیت کئی ممالک کے سرمایہ کار آرمی چیف سے ملاقات اور اعلی ترین فورمز پر بھی کر چکے کہ ہمارا ادارہ جاتی ماحول سرمایہ کاری و ملکی ترقی کی راہ میں روکاوٹ اور قوانین سرمایہ کاروں سے مال بٹورنے کی دستاویز۔ کسی حکومت نے آج تک سرمایہ کاروں کو ساز گار ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی اور نہ کاوش۔

سو اس گھٹن اور کرپشن زدہ ماحول میں سرمایہ محفوظ ہے اور نہ سرمایہ دار۔ سو کام نکلوانے کے لیے فائلوں کو پہیے لگانا ضروری و مجبوری، ٹائیکون کے لگائے گئے پہیوں نے رنگ دکھایا اور انکی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی گئیں۔ 80 اور 90 کی دہائی میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں قدم رکھنے والے اس شاہکار نے کامیابی کے زینے اس تیزی سے طے کئے کہ اس وقت کی پی پی حکومت کی نظروں میں آ گئے۔ پھر وہ پرسنٹیج ان پر بھی لاگو ہوئی جو اس دور کا چلن تھا۔

مسلم لیگ ن کے دور میں پہلے پہل کاروباری مفادات پر زد پڑی تو پی پی دور کے آزمودہ نسخہ نے ایسا کام دکھایا کہ تمام متعلقہ ادارہ جات تابع فرمان ہوئے۔ مشرف دور میں بھی ابتلا آئی مگر پھر جلد ہی خزاں رسیدہ پراجیکٹس پر بہار آنے لگی۔ وہ وقت بھی آیا کہ وہ ماضی کی حریف ترین جماعتوں کے مابین خفیہ سفارت کاری و پیغام رسانی کا ذریعہ بنے رہے۔ کہ وہ ان سب کی "قائد دوستی" اپنی آنکھوں سے دیکھ اور ان پر آزما چکے تھے۔ 2018-19 میں ایک بار پھر آزمائشوں نے آن گھیرا تو کنجی لاہور سے ملی جس سے وزیر اعلی ہی کیا، وزیر اعظم ہاوس کے دروازے بھی کھل گئے۔

مرشد کی نگاہ میں رہنے کے لیے اپنی روایتی دریا دلی کا خوب مظاہرہ کیا۔ 97 کی دہائی سے لیکر 2022 تک ملک کا کون سا ایسا سیاست دان کہ جس سے ملک ریاض نے حق دوستی نہ نبھایا ہو۔ انکی اسی خوبی نے کپتان جیسے انا پرست کو ایسا گرویدہ بنایا وہ اب بھی ان کے حق میں رطب اللساں۔ وقت اور ضرورت کے مطابق مختلف طبقات جن میں صحافی، دانشور، حاضر و ریٹائرڈ سول و ملٹری بیورکریٹس بھی شامل انکی نظر التفات میں رہے۔ فائلوں کو پہیے لگانے کی حقیقت کا کھلے بندوں اعتراف درحقیقت نظام کا پردہ چاک کرنے کے مترادف کہ جس سے گزرے بغیر کاروباری ترقی نا ممکن۔ ہر دور حکومت میں ملک ریاض کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا مگر ان کا پراجیکٹ ترقی کے زینے طے کرتا رہا اگر چہ بعد ازاں سب نے اپنے مفادات کے لیے انہیں بروئے کار بھی لایا اور یہ سلسلہ چلتے چلتے 2022 تک ان پہنچا۔

سوچنے کی بات یہ کہ اگر نواز شریف، زرداری اور عمران خان ملک ریاض کے وسائل اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور ماضی میں مقتدرہ نے بھی ان کی صلاحیتوں کو قومی معاملات میں آزمایا تو بار بار رگڑا لگانے کی بجائے ان کے وسائل اور صلاحیتوں کو عوامی فلاح کے لیے کیوں بروئے کار نہیں لایا جا سکا؟

شنید یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایسی پیشکش کم و بیش ہر دور حکومت میں کی، مگر افسوس کہ سبھی ذاتی مفادات کے اسیر نکلے۔ یہ بھی درست کہ بشری بی بی اور عمران خان نے ان کے خوان نعمت سے ٹکڑے چنے مگر اس جرم کی سزا اکیلے عمران خان کو کیوں؟ فیض یافتہ تمام سیاست دان، سول و ملٹری بیوروکریسی کے وہ تمام کردار کہ جنہوں نے ماضی میں اپنے اثرورسوخ کے ذریعے انکے پراجیکٹس کے لیے ناجائز سہولت کاری کی، اس کے پھیلاو میں قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے عوض بھاری مراعات لیں، وہ صوبائی حکومتیں کہ جو شاملات و سرکاری زمینوں پر تعمیرات پر خاموش رہیں کو کیوں کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ مفادات حاصل کرنے والے ہر کردار حکومت میں ہو یا اپوزیشن، ریٹائرڈ یا حاضر سروس سب کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ اگرچہ اس معاملہ پر پی ٹی آئی کا استدلال الگ کہ پراپرٹی ٹائیکون سے ناجائز فوائد لینے والے تمام کردار سزا کے مستحق سوائے کپتان کے۔ میری دانست میں اگر ملک ریاض ہمت کریں تو یہ احتساب کا نکتہ آغاز ہو سکتا کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ مفاد یافتہ نہیں اس لیے وہ اس بے لاگ اور کڑے احتساب کے آغاز سے خوفزدہ نہیں کہ جس کا مطالبہ اس ملک کا ہر محب وطن شہری مدتوں سے کرتا چلا آ رہا ہے۔

کیا نیب 1990 سے لیکر 2020 تک ان تمام اہل کاروں بھی نوٹسسز جاری کرے گا کہ جو حصہ بقدرے جثہ وصول کر چکے۔ کیسی عجب روایت کہ ناجائز منطوریاں دینے، سرکاری وسائل پر قبضہ کی سہولت کاری کروانے اور اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت کے مجرمان تو بھاری رشوتیں لیکر پرتعیش زندگی کے مزے لیں اور اکیلے ملک ریاض ان سب کے گناہوں کی سزا بھگتیں! قانون کی حکمرانی اور ملکی ترقی کے لیے اب فرسودہ قوانین اور روایات بدلنے کا وقت ہے۔ نیب کرپشن کے بھاری بھرکم بوجھ کو ان سب کرداروں میں تقسیم کرے جو اس میں حصہ دار رہے۔

Check Also

Riyasat Se Larai

By Najam Wali Khan