Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Kya Sirf Ehtejaj Kafi Hai

Kya Sirf Ehtejaj Kafi Hai

کیا صرف احتجاج کافی ھے

اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرادار ICCPR کے مطابق کسی تحریر، تقریر اور عمل سے کہ جو کسی فرد، قوم یا کسی بھی قسم کی مذہبی دل آزاری کا باعث بنے، جرم ہے۔ اور اس ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ مسلم دنیا میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے شعائر اسلام کی بے حرمتی کو فیشن اور اظہار رائے کی آزادی کے طور لیا جا رہا ہے۔

اگرچہ اقوام متحدہ نے آزادی اظہار رائے کی کچھ حدود مقرر کی ہیں مگر چونکہ اقوام متحدہ امریکہ سمیت مغربی ممالک پر قانون کے اطلاق میں اتنا فعال نہیں جتنا ترقی پذیر اور بالخصوص مسلم ممالک پر۔ سو اظہار رائے کی آزادی کے نام پر حدود و قیود توڑنے اور ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کو کبھی اس طرح خاطر میں نہیں لایا گیا کہ جس کے یہ قوانین متقاضی ہیں۔ اس کے برعکس ہولو کاسٹ کے انکار اور اس پر بحث پہ یہ قوانین فوری حرکت میں آتے ہیں۔

اسے اہل پاکستان کی بدقسمتی ہی کہیے کہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہونے والی اہانت کو بالواسطہ حکومت وقت کے کھاتہ میں ڈال کر جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد مظاہرے شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ مسئلہ درپیش رہا اور اس سے قبل کی حکومتوں کو بھی، کہ مذہب کے نام پر عوام کو مشتعل کرنا اور سڑکیں بلاک کرکے عوام کو عذاب میں مبتلا کر دینا دین کی محبت کے طور پر لیا جاتا ہے۔

ہمیں اپنے ان رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ کسی ایک فرد کی جسارت کو اقوام پر منطبق کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ اقوام متحدہ کے ذمہ داران ہوں یا اہل مغرب، ہر دو آزادی اظہار رائے کی کچھ حدود و قیود کو تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا کہ "میں آزادی اظہار رائے کے حق کو تسلیم کرتا ہوں مگر یہ حق مطلق نہیں اور یہ دانش مندی اور ذمہ داری سے مشروط ہے"۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے اس بارے اپنے تبصرہ میں کہا کہ "ہر شخص کو آزادی اظہار رائے کا حق ہے اور ھم اس کا احترام کرتے ہیں مگر کسی کو توہین اور بے سبب اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ ہر مذہب کے کچھ قابل حرمت امور ہوتے ہیں"۔ سابق فرانسیسی وزیر خارجہ فلپ ڈوسے نے کہا تھا کہ "آزادی اظہار رائے کے قانون پر عمل برداشت، عقائد اور مذاہب کے احترام کی روح کے ساتھ ہونا چاہیے کہ جو ہمارے ملک کے سیکولر ازم کی بنیادی اساس ہے"۔

آسٹریا، بلجئیم، چیک ری پبلک، فرانس، اسرائیل، جرمنی، لیتھونیا پولینڈ، رومانیہ، سوئٹزرلینڈ وغیرہ میں ہولو کاسٹ کا انکار جرم اور اس پر سزا ہے کیونکہ اس سے ایک مذہبی طبقہ کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مغربی ممالک جن میں سویڈن بھی شامل ہے میں نفرت اور اشتعال انگیز گفتگو کے خلاف بھی قوانین موجود ہیں۔ اس بات کو بنظر عمیق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کینیڈا، فرانس، جرمنی، فن لینڈ، انڈیا، ناروے، نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک میں یہ قانون موجود مگر اس کے باوجود ان ممالک میں مذہبی شعائر اور وہ بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بار بار اہانت کیوں کی جاتی ہے۔

معروف ریسرچ سکالر پروفیسر محمد اقبال چشتی اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاشی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے طاقتور اقوام کسی کو اپنے مشاہیر، ملک اور رسوم کی اہانت کی بھی اجازت نہیں دیتیں گرچہ مذہب سے ان کا رشتہ برائے نام مگر اس سے زیادہ وہ اپنے قوانین کی خلاف ورزی پر بھی معافی کی گنجائش نہیں دیتے مگر اس وقت چونکہ مسلم دنیا مقہور اور کمزور ہے اس لیے اقوام متحدہ اور ان ممالک کے قوانین اپنے شرپسندوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتے۔ عالم کفر ارداتا مسلمانان عالم کے جذبات کا استحصال اور ان کی بے بسی کا لطف لیتا ہے۔۔

بدقسمتی یہ کہ اہانت انگیز واقعات پر ہم نے کبھی بامقصد احتجاج کا راستہ ہی اختیار نہیں کیا۔ اس بارے معروف مذہبی سکالر اور قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم کہتے ہیں کہ "موثر اور پرامن عوامی احتجاج بلاشبہ فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے مگر اس سے اگلا مرحلہ مسلم حکومتوں، امت مسلمہ اور پھر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے موثر احتجاج ضروری اور رائج قوانین اور ضوابط کے مطابق اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھا کر ہی مقاصد کا حصول ممکن ہے"۔

اہل مغرب کو یہ بھی علم ہے کہ جھوٹے پراپپگنڈہ اور اس طرح کے گھٹیا اقدامات سے فاران کی چوٹیوں سے پھیلنے والے نور ہدایت کو روکا نہیں جاسکتا مگر وہ مسلم امہ کی اخلاق کمزوریوں اور علمی، فکری اور عملی زوال سے بخوبی آگاہ ہیں سو مسلمانوں کی یہ زبوں حالی انہیں ایسا کرنے پر اکساتی ہے۔ جامعہ الازہر کے فتوی کے بعد عرب میں سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہو چکی مگر اس کے لیے 57 اسلامی ریاستوں کو متفقہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ گستاخی کا جواب پرتشدد احتجاج یا بے مقصد جذباتیت سے دینے کی بجائے اپنے طرز عمل، بود وباش اور معاملات زندگی میں انقلاب بپا کرکے دیا جانا چاہیے۔

ترک کہاوت ہے کہ شر کے پیچھے خیر چھپا ہو سکتا ہے مگر ہمیں اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم اللہ، اس کے رسول اور قرآن کو تو مانیں مگر انکی نہ مانیں اور فقط نعروں سے دین کو سربلند کرنے کی سعی لاحاصل کریں۔ افراد کو انفرادی اور معاشرے کو اجتماعی طور پر بدل کر ہم عالم کفر کی اس جسارت کا جواب بطریق احسن دے سکتے ہیں مگر!

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور ھم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

تعلیمی اداروں اور مدارس دینیہ کے نصاب کو اسلامی اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ایک ہی ملک میں تعلیمی و فکری خلیج کو ختم کرکے قرآن کی ترویج ممکن اور دراصل یہی اہل مغرب کو انکی مکروہ حرکت کا علمی و فکری جواب ہے۔ ثانیا یورپی ممالک میں قرآن سیمینار کا انعقاد کہ جہاں حکیمانہ انداز فکرکے حامل مسلم سکالرز اہل مغرب کے روحانی، اقتصادی، معاشی، فکری اور مذہبی اشکالات کا جواب دیں۔ اس سلسلہ میں حکومتوں کا غیر محسوس کردار ان سیمینارز کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اور جو بدبخت قرآن کے نور کو بجھانے میں کوشاں ہیں امت اسی نور کے چراغ کو اپنی عملی زندگیوں میں روشن کرے۔

Check Also

Bartania Mama Bane Na America Thekedar

By Najam Wali Khan