Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Jashan e Azadi Bator Youm e Hisab

Jashan e Azadi Bator Youm e Hisab

جشن آزادی بطور یوم احتساب

ہمارا تعلق اس نسل سے ہے کہ جس نے ہجرت کے مصائب و آلام سہنے والوں کی گود میں پرورش پائی اور مظالم کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستانیں اپنے کانوں سے سنیں۔ اقدار و روایات کی پاسداری بھی دیکھی اور اب ملیا میٹ ہوتا بھی انہی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر نسل نو کو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا معلوم ہے اور نہ اس کے اغراض و مقاصد کا، ہاں البتہ ہم سے ہر ایک کو اپنے اغراض کا بھی پتہ ہے اور مقاصد کا بھی۔

اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ اب کی بار ھم تاریخ کے جھروکوں سے پہلی اسلامی ریاست کے وجود کا مقاصد کو جاننے کی کوشش کریں اور ان مظاہر کو سمجھنے کی، کہ جو قیام پاکستان کے دوران رونما ہوئے اور قیام پاکستان کا آنکھوں دیکھا حال براہ راست راویوں سے سنیں اور اگر وہ دستیاب نہیں تو "میں نے پاکستان بنتے دیکھا" جیسی تصانیف کو چند لمحوں کے لیے کھول کر تصور میں 77 سال پہلے کے مناظر اور جد و جہد کو سجا لیں تو یقیناََ یہ ذہنوں پر جمی گرد کو مٹانے کے لیے اکثیر رہے گا۔

مگر اس میں بھی شک نہیں کہ جنہوں نے 1947 میں کھلم کھلا دہشت گردی کرکے لاکھوں شہید کئے اور ہزاروں کی عصمت دری کی وہ اب کیسے سکون سے بیٹھ سکتے تھے سو پاکستان میں نظریاتی و فکری اور سیاسی انتہا پسندی کا فروغ اور دہشت گردوں کی پشت پناہی و سرپرستی کا عمل جاری رکھ کر وہ اہنے مقاصد کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں یقیناََ بھارت اور اسرائیل عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اعلانیہ و خفیہ ہر حربہ بروئے کار لا رہے ہیں اب یہ ہماری فراست اور حکمت کا امتحان کہ اسے ناکام بناتے ہیں یا نادانستہ طور پر انکے مذموم پراپگنڈہ کا حصہ بن کر مایوسی اور ملک بیزاری کی لہر کا حصہ بنتے ہیں۔ سو 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر ھم نے اہنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو کر اس دھرتی سے تجدید عہد وفا کرنی ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ ہمارے نظام انتخاب سے لیکر طرز انتخاب تک ہزاروں خامیاں، بیوروکریسی اور طبقات امرا کی بدعنوانیاں اور اداروں کے سربراہان کی نااہلیاں، قرضوں کی دلدل اور کرپشن کی بھی۔ جبکہ قومی سطح پر اخلاقی اور فکری زوال ان سے سوا۔ مگر کوہتاہیوں کی طویل داستان کے باوجود اگر دوسری طرف نظر دوڑائیں تو بے سروسامانی سے سفر شروع کرنے والی ریاست اس وقت عالمی طاقتوں کی مرکز نگاہ۔ بے شمار کمزوریوں کے باوجود پاکستان نے وہ کر دکھایا کہ طاقتور ممالک بھی جس کا سوچ نہیں سکتے۔ دنیا پاکستان کی عسکری اور یہاں کے نوجوانوں کی تخلیقی، تحقیقی اور تکنیکی صلاحیتوں کو ہمارے سیاسی راہنماوں کی بصیرت اور صلاحیت پر پرکھتی رہیں مگر بھلا ہو بھارت کا کہ جس نے عشروں سے دنیا کے دل و دماغ پر چھائی غلط فہمی کو دور کرنے کا موقع فراہم کیا۔

محض 3 گھنٹے 45 منٹ کی ضرب نے وہ کر دکھایا۔ قدرت نے رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں قائم ہونے والے اس ملک اس کے قیام میں شامل شہدا کے خون اور قربانیوں کی لاج رکھنا تھی سو اس نے پاکستان کو ذلت سے نکال کر عظمت کی راہ دکھائی۔ اب اگر قیادت نے اخلاص اور دیانت کی روش اپنائی تو معاشی میدان میں سرخروئی بھی مقدر۔ ہماری تمام تر صلاحیتیں اور قدرت کی نوازشات منتظر ہیں اہل، باکردار اور صالح قیادت کی کہ موجودہ لاٹ قائد کے معیار پر پورا اترتی ہے اور نہ اسلامی معیار انتخاب پر۔

ان کامیابیوں ان ذخائر اور ذہین دماغوں کو اب اگر ھم ہی سنبھال نہ پائیں تو قصور اس دھرتی کا نہیں بلکہ سال ہا سال سے اس کے وسائل پر قابض رہنے والوں، دھرتی کو نوچنے اور اس پر بھونکنے والوں کا ہے اس میں صرف سیاست دان یا اشرافیہ ہی شامل نہیں بلکہ اس مملکت کو اس حال تک پہنچانے میں عوام برابر کی ذمہ دار کہ جو ہر بار وقتی نعروں، خوش کن دعوں پر مکار سیاست دانوں کے چنگل میں پھنستی ہے جبکہ قدرت نے اسے فرسودہ، سرمایہ دارانہ نظام اور طرز انتخاب تبدیلی کا موقع دیا تھا مگر افسوس کہ غفلت میں پڑی قوم نے کان نہ دھرے اور وہ اپنی افتاد طبع کے باعث کھوکھلے نعروں سے دھوکہ کھا گئی۔

اب اللہ نے ایک بار پھر عظمت رفتہ کے لیے اس قوم کو موقع فراہم کیا ہے کہ مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہمارا منتظر۔ اگر ایک طرف سپرپاورز کے ساتھ تعلقات میں باوقار واپسی ہے تو دوسری طرف مشرق کا جنیوا ایران بھی پاکستان کی حمایت پر شکر گذار اور انکی پارلیمنٹ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے یقیناََ بھارتیوں و اسرائیلیوں کے دلوں پر رعد کی طرح کڑکے ہوں گے۔ دوستی کے محاذ پر ایک اور بڑی کامیابی بنگلہ دیش سے بھارت نواز شیخ مجیب کی باقیات کا خاتمہ اور ربع صدی کے بعد برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار۔

نفرت، تعصب، بھارت نوازی دہشت و انتہا پسندی پر مبنی شیخ مجیب کے نظریات دم توڑ چکے اب ایک نئے بنگلہ دیش کا جنم دیکھئے کہ جو پاکستان کے شانہ بشانہ اور پاکستان کی وساطت سے چین نے بھی بنگلہ دیش کے لیے اپنے بازو کھول رہا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی اب پاکستان کی صلاحیتوں پر نازاں اور انکے تبدیل ہوتے روئیے ہمارے لیے معاشی کامیابیوں کی نوید۔ غرضیکہ عالمی سطح پر پاکستان کا بلند ہوتا وقار ہمارے لیے باعث عزت ہے تو اب ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ھم اپنے آپ کو باوقار قوم ثابت اور عزت کا اہل بنائیں۔ نفرت، تفریق، سیاسی عصبیت، انتہا پسندی، بدعنوانی، جھوٹ، بہتان اور غیبت کے ساتھ تو عزت و شرف حاصل ہونے سے رہا۔ ایمان اور اتحاد کی دولت ہی ہمارے لیے لازم۔

یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان سب کامیابیوں کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملک میں معاشی، تجارتی، سیاسی و اخلاقی استحکام آ گیا ہاں اس جنگ نے کامیابی کے دروازے ضرور کھولے مگر بدقسمتی کہ ہم اپنے بند ذہنوں کو کھولنے کو تیار نہیں۔

یوم آزادی پر ہمارے ہیش نظر اپنی اصلاح کی کوشش بھی ہے کہ فی الوقت ھم سیاست دانوں سے لیکر مقتدرہ اور بیوروکریسی سے لیکر علما تک کی اصلاح کا کٹھن فریضہ صبح و شام مخالف نظریات رکھنے والوں کی کردار کشی کرکے سرانجام دے رہے ہیں اس جدوجہد اور فریضہ کی ادائیگی کے بعد اپنی اصلاح کا وقت ہی کہاں بچتا ہےکہ اپنے ضمیر کو جھوٹ، بہتان اور غیبت کے بوجھ سے آزاد کرکے روح کو تازہ دم اور مقدس دھرتی پر ندامت و تشکرکے چند آنسو ہی گرا لیں۔ اس بار یوم آزادی کے موقع پر کچھ حد تک ہی سہی قومی معاملات اور ملکی استحکام جیسے امور پر اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا کرنے کی سعی ہر فرد کو ادا کرنا ہوگی کہ "ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ "۔

اس جشن آزادی پر ہمیں اول و آخر پاکستانی بننا ہے اس کے بعد جیالا، متوالا اور کھلاڑی کہ یہ ملک اور یہ زمین ہے تو جیالے بھی راج کریں گے، متوالے کر رہے ہیں تو کھلاڑیوں کا بھی موقع آئے گا مگر شرط وہی اس دھرتی سے وفاداری کا کہ اس سے آپ بھی ترقی کریں گے اور ملک بھی۔ آئیے خدا کے حضور سجدہ شکرکے ساتھ 78 ویں جشن آزادی کو یوم احتساب کے طور پر منائیں کہ

آٹھ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہے

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz