Fake Wade, Fake News Pabandi Dono Par Lazim
فیک وعدے، فیک نیوز پابندی دونوں پر لازم

ہماری ہاں صحافت اگر فیک نیوز کی زد میں ہے تو سیاست میں فیک وعدوں کا راج۔ جھوٹی ٹویٹس پر ٹاک شوز، مضامین اور احتجاج تک ہو جاتے ہیں مگر ہر بار سچ سامنے آنے کے بعد شرمندگی۔ یہ تو ممکن نہیں۔ مگر دونوں میں ایک قدر مشترک کہ فیک نیوز ہوں یا فیک وعدے عوام اس کے دلدادہ اسی لیے تو سنتے و پھیلاتے بھی شوق سے ہیں اور بار بار اعتبار بھی کرتے ہیں۔
اس کو اگر سائیکالوجی کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کی ایک وجہ کہ اب ہمارے ذہنوں اور بہت حد تک ضمیر نے جھوٹ سے سمجھوتہ کر لیا ہے اس لیے اچھے بھلے شرفا، تعلیم یافتہ اور مذہبی رجحان کے حامل بھی! اسی لیے تو جھوٹ اور بدعنوانی کو معاشرے برا نہیں سمجھا جاتا ہاں مگر اس کی برائیاں ضرور بیان کی جاتی ہیں۔ صاف بات تو یہ کہ جو جتنا کذب بیان اور بداخلاق وہ اتنا معتبر و مقبول۔
نام نہاد مذہبی ملک کے باسیوں کو اگر جھوٹ اتنا پی برا لگتا تو فیک نیوز پر سزا کو آزادی اظہار رائے سے منسلک کرکے فرار اور احتجاج کی راہ کیوں اختیار کی جاتی۔ کیا آج تک اللہ اور رسول کے نام پر مرنے اور مار دینے والوں نے کبھی اپنی مذہبی و سیاسی قیادت کو ہزاروں لاکھوں کے اجتماع میں جھوٹے دعوے اور وعدے کرنے پر گرفت کی یا اس بارے قانون ساز اسمبلی نے کوئی قانون سازی کی؟
روٹی کپڑا اور مکان، قرض اتارو ملک سنوارو، ایشین ٹائیگر و اسلامی نظام، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں جیسے فیک وعدوں پر اگر قانون نے گرفت اور عوام نے گریباں چاک کیا ہوتا تو نام نہاد جمہوریت قریب المرگ نہ ہوتی، ویسے میری دانست میں اب اس کی مرگ ہی بہتر کہ موجودہ سیاست دان تو ابلیس کی مجلس شوری کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔
مگر تلخ حقیقت یہ کہ صحافت میں فیک نیوز اور سیاست میں جھوٹ کے ذمہ دار ھم خود ہیں۔ بلا استثنا مسجد سے نکلتے نمازی ہوں یا مذہبی جماعتوں کے سرگرم کارکن و راہنما، سرکاری بابو ہوں یا اعلی افسران، سیاست دان ہوں یا حکمران، سبھی فیک نیوز کے دل دادہ اور فیک وعدوں کے پرچارک۔ مجال کہ حقیقت جاننے کی کوشش کی ہو، فیک نیوز سنی اور ثواب جان کر پھیلائی۔ حقیقت سامنے آنے پر بھی کبھی طبیعت بے چین ہوئی اور نہ ضمیر نے انگڑائی لی۔ بلکہ اب تو جھوٹ سننے اور بولنے کے بعد ہوس اور ہی بڑھتی ہے۔
ہم صرف سیاست دانوں کو روتے ہیں مگر کبھی خیال کیا کہ ہماری عمومی مذہبی قیادت کیسے کیسے (لفظ جھوٹ ان کے لیے کہنا مناسب نہیں) شگوفے چھوڑتی ہے۔ ناقابل عمل اور ناقابل یقین دعوے اور تقریریں۔ مثلاََ آپ اور ھم نے برس ہا برس سے نظام مصطفی کے نفاذ کی باتیں اور دعوے سنے ہوں گے۔ کوئی ان اللہ کے بندوں سے نظام مصطفی کے خد و خال ہی پوچھ لے، پانچ منٹ میں طبیعت صاف ہو جائے گی۔ ملکی اقتصادیات، قرضہ جات، عالمی بنکوں سے معاملات اور بلا سود بینکاری، نظام تعلیم، پولیس ریفارمز، محکمہ مال و پٹوار نظام، خارجہ امور، انٹرنیشنل ریلیشنز، مذہبی و اقلیتی امور، انتہا پسندی۔ تنگ نظری، نفرت اور تکفیری سلسلہ کا خاتمہ، عوامی اصلاح و نظام تربیت، نظام عدل سے لیکر مقننہ تک اور نظام انتخاب سے لیکر حکومت سازی۔ ظاہر ہے یہ ایسے امور کہ جن کا موجودہ مذہبی قیادت احاطہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ کہ کمیٹیاں ڈال کر قرضے اتارے جا سکتے ہیں اور نہ شدت پسندی سے ملک چلتے ہیں۔
انتہائی معذرت کے ساتھ ہماری مذہبی قیادت مساجد و مدارس کو قومی دھارے اور انکا حساب کتاب رکھنے و دینے کو تیار نہیں تو ان سے امانت داری کے ساتھ قومی خزانے کی حفاظت کی توقع! ۔ نظام مصطفی و اسلامی نظام پر دہائیوں سے سیاست کرنے والے آج تک قابل عمل متبادل پیش نہ کر سکے سوائے جھوٹے نعروں کے کہ یہ ان کی استطاعت سے باہر۔ مگر دوسری طرف کی سچائی یہ کہ اسلامی نظام عوام کی بھی ضرورت نہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے ان کی چوائس مسلم لیگ رہی یا پی پی اور اب پی ٹی آئی۔ موثر اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کرنے والی عوامی تحریک کا انتخابات میں عوام نے جو بھرکس نکالا وہ سب کے سامنے۔
قانون شکنی کے ماحول میں پلے بڑھے معاشرے کے شہریوں کے لیے قانون پر عمل کتنا مشکل اور تکلیف دہ ہے، عوامی چیخ و پکار سے یہ عیاں ہے۔ فیصلہ اور کام چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس پر تنقید ہمارا قومی وطیرہ، خیر چھوڑئیے۔ اگر یہی پاکستانی دبئی اور برطانیہ جا کر اس سے زیادہ سخت قوانین کی پاسداری کر سکتے ہیں تو پھر مسئلہ قوانین پر عمل کا نہیں ہمارے دماغ کا ہے کہ جو پاکستان میں رہ کر سیدھا ہونے کو تیار نہیں۔
جہلم سے نوجوان صحافی یاسر فہمید کی تحریر " قوانین کی پابندی عذاب نہیں تہذیب" نظر سے گزری۔ اس ضمن میں انہوں نے قانونی شکنی کی عادت کو ختم کرنے پر بہت موثر اور نپے تلے پیرائے میں لکھا۔ چند ایک نے وزیر اعلی سے طلبا کے لیے چالان اور لائیسنس فیس میں گنجائش کی قابل عمل اپیل کی۔ اب جبکہ وزیر اعلی نے عادی قانون شکنوں کے لیے پتلی گلی کا راستہ بھی نہیں چھوڑا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ CTO آفس کے جوان اگر ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی اداروں میں جا کر 14 سے 15 سال کے طلبا کو ٹریفک قوانین بارے ابتدائی راہنمائی دیکر عارضی موٹر بائیک پرمٹ جاری کرنے کا عمل شروع کریں تو عوام پر بوجھ کے بغیر اگلے چند ماہ میں اسکے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو سکتے ہیں۔
اس ضمن میں سکولز ایسوسی ایشنز ان کی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ جبکہ وفاقی و صوبائی سطح پر محکمہ تعلیم فوری طور پر 6th جماعت سے ٹریفک قوانین بارے شعور کے لیے مختصر نصاب ترتیب دیکر اسے تمام سرکاری و نجی اداروں میں لاگو کرکے ٹریفک قوانین بارے آگاہی کا سلسلہ موثر بنیادوں پر شروع ہو سکتا ہے۔ ویسے تو مخالف سمت پر ڈرائیونگ، سگنلز کی خلاف ورزی اور تیز رفتاری پر سخت قوانین اور بھاری جرمانوں پر بار گناہ ھم جیسوں پر بھی ہے کہ جو عرصہ سے ارباب اختیار سے اس کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب قوانین پر عمل کا فیصلہ اگر اعلی سطح پر کر لیا گیا ہے تو اس ضمن میں کمزور اور طاقتور کا استثنا صوبائی حکومت کے لیے باعث رسوائی اور عوامی نفرت کا سبب بن سکتا ہے۔

