Ehd e Qadeem O Jadeed Ke Mujadadana Afkar Aur Al Hidayah Camp
عہد قدیم و جدید کے مجددانہ افکار اور الہدایہ کیمپ
چھٹی صدی ہجری یونانی فلسفہ و علوم اور اسلامی افکار کے مابین تصادم کا دور تھا اور شاید نظریات کے باب میں پہلا شدید ٹکراؤ۔ قدیم یونانی تہذیب کہ جس کی دھاک صدیوں سے تھی تو اس کے مقابل پاکیزہ اور ہمہ جہت تہذیبی افکار کی ترویج کی ضرورت تھی۔ اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافتی افکار کی تجدید روایتی فکر، طرز اور تعلیم سے ممکن نہ تھی تو اس کے لیے اللہ نے حجتہ السلام امام غزالی کی صورت میں تجدیدی فکر کی حامل شخصیت امت کو عطا کی۔
آپ نے فلسفہ و یونانی علوم کا براہ راست رد کرنے کی بجائے آشنائے فن ہو کر "مقاصد فلسفہ" کتاب لکھی اور بعدازاں اس کے رد پر تہافتہ الفلاسفہ۔ اس دور میں یونانی فلسفہ کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ عقل کو علم حیاتیات اور دیگر سائنسی علوم پر برتر تصور کیا جاتا تھا۔ امام غزالی نے عقل کی حدود کا تعین دلائل قطعیہ سے اور ماورائے ادراک حسیات کی نمو روحانی ترقی کی صورت میں، تو اس کے لیے منہاج العابدین، مکاشفتہ القلوب اور احیائے علوم جیسی معرکتہ الآرا کتب تحریر کیں۔ جو آج بھی تصوف، سلوک، اور باطنی طہارت کے متلاشیوں کے لیے راہنما ہیں۔
گیارہویں صدی ہجری میں ہندو تحریک نے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو شیخ احمد سرہندی نے اس فتنہ کی سر کوبی کی تو بارہویں، تیرہویں اور چوہدویں صدی میں بالترتیب شاہ ولی اللہ، پیر سید مہر علی، امام احمد رضا اور علامہ محمد اقبال مجددانہ صلاحیتوں کے ساتھ منثہ شہود پر آفتاب بن کر چمکے۔ امام احمد رضا رضوی تنقیص رسالت کے مقابل ادب و عشق رسول تحریک کے بانی ٹہرے تو پیر سید مہر علی نے فتنہ قادیانیت کا سر کچلا۔ اقبال کے افکار نے ہند کے مسلمانوں کے اندر آزادی کی روح پھونکی اور کفر کی مکارانہ چالوں کو بے نقاب کیا۔
موجودہ دور سائنس اور افکار جدید کا دور اور مسلمان مغربی افکار و ٹقافت سے متاثر جس سے دین بیزاری عام اور مسلمان نظریاتی، روحانی اور عملی طور پر کمزور ہونے لگے۔ تحقیق و تصنیف کے دروازے انہوں نے خود پر بند کئے تو معاشی، معاشرتی، عسکری اور سیاسی طور پر انہیں مغرب کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ مذہبی طبقات سطحی و َاختلافی مسائل میں الجھ گئے اور سیاسی قیادت بدعنوان اور کوہتاہ نظر ٹہری۔ اس دوران سن 2000 کی دہائی میں کہ جب ملکی سطح پر تفرقہ و انتشار اور عالمی سطح پر دہشت گردی و انتہا پسندی عروج پر تو اس کے خلاف بین المسالک رواداری و بین المذاہب ہم آہنگی کی پہلی توانا آواز شیخ الاسلام کی اٹھی۔
جب امت عالم کفر کے علمی، فکری و نظریاتی حملوں کو روکنے میں ناکام ہونے لگی اور نت نئے فتنے جنم جو عہد منگول میں سلطنت بغداد کے بکھرتے سیاسی شیرازہ اور فرقہ واریت کی یاد تازہ کرنے لگے۔ ان حالات میں تجدید دین کی ضرورت تھی مگر افکار جدید کے ساتھ، کہ علمی، تحقیقی، فکری، اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی و اخلاقی روایات کو از سر نو زندہ کرکے عالمگیر غلبہ اسلام اور احیاء کی تحریک کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ایسے میں نامور سکالر اور تحریک منہاج القرآن کے بانی ڈاکٹر محمد طاہر القادری نےاپنے آپ کو ہمہ گیر شخصیت کے طور پر نہ صرف برصغیر بلکہ بلاد عرب اور امریکہ سے یورپ تک کے معتدل حلقوں حتی کہ مستشرقین میں بھی منوایا۔ مختلف موضوعات پر پانچ ہزار سے زائد خطابات اور 950 سے زائد تصانیف انہیں عصر حاضر میں سب سے ممتاز کہ اس کے ذریعے انہوں نے دین بیزار افراد کو اسلام کے قریب، اور خارجی و ناصبی افکار کے آگے بند باندھ کر امت کو اعتدال کی راہ اور اہل مغرب کو اسلام کے تصور امن اور پیغمبر اسلام کو بطور رحمت عالم متعارف کرایا۔
دہشت گردی کے خلاف انکے فتاوی کو عالمگیر شہرت ملی۔ اب جامعہ الازہر سمیت کئی عرب و مغربی ممالک کی جامعات میں ان کی کتب بطور نصاب شامل ہیں۔ "اللہ کی طرف سفر" کے عنوان سے الہدایہ تربیتی کیمپ بھی اسی تجدیدی تحریک کا حصہ جو یورپ کے قلب برطانیہ کی معروف ترین یونیورسٹی واروک میں انعقاد پذیر ہوا۔ الہدایہ کے آرگنائزر محترم آصف حبیب ملک نے بتایا کہ کیمپ میں پورپ کے علاوہ امریکہ، کینیڈا اور مڈل ایسٹ سے ہزاروں جبکہ انڈونیشیا سے سرکاری وفد نے بھی شرکت کی۔
یہ بات قابل ستائش اہل یورپ کہ جنہیں اپنوں کو فون کا وقت بھی نہیں ملتا، مگر یہ صدر الہدایہ ڈاکٹر زاہد اقبال، منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے صدر سید علی عباس بخاری انکے ساتھیوں محمد فرحان قادری، حمیرا علی، بابر خان، صبح اقبال، تنویر روف، محترمہ خدیجہ، ڈاکٹر علی اکبر، عائشہ حسین، معظم رضا ابو آدم الشیرازی، ڈاکٹر خالد محمود و دیگر کی پر خلوص دعوت کا کمال تھا، شرکا کی دینی علمی و روحانی پیاس یا مے خانہ حجاز کے ساقی کی محبت، کہ مے خوار کشاں کشاں سہ روزہ تربیتی کیمپ کا حصہ بنتے گئے کہ Warwack یونیورسٹی کا وسیع و عریض ھال اپنی تنگ دامنی پر شرمندہ نظر آیا۔
الہدایہ کیمپ سے حماد مصطفی المدنی، ڈاکٹر غزالہ حسن قادری کے علاوہ معروف سکالرز پروفیسر ذیشان قادری، ڈاکٹر محمد رفیق حبیب، علامہ محمد افضل سعیدی، علامہ صادق قریشی نے بھی خطابات کئیے۔ تربیتی نشست کے پہلے روز شیخ الاسلام نے اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کو بیان اور تصوف، سلوک و معرفت کے ذریعے کردار سازی پر بات ہوئی۔ دوسرے دن کا لیکچر الرسالہ القادریہ سے انتخاب تھا اور آخری روز کی نشست میں مثنوی مولائے روم سے احوال باطنی کی ترقی، تزکیہ و تصفیہ قلب بارے گفتگو تھی۔
کیمپ کی خاص بات کہ اس میں تربیتی خطابات کے علاوہ وہاں کے ماحول، شرکا بالخصوص طلبا، نوجوانوں اور بچوں کی چاشنی کو برقرار رکھنے کے لیے عربی نغمات، قوالی، قصیدہ بردہ شریف، اور دیگر سماجی پروگرامز جبکہ اور خواتین و بچوں کے گروپس کے لیے الگ تربیتی نشستیں بھی پروگرام کا حصہ رہیں۔ منہاج برطانیہ کے صدر علی عباس بخاری کے مطابق اہل مغرب کو اسلام سے روشناس اور وہاں کی مسلم آبادی کا دین سے تعلق مضبوط رکھنے کے لیے الہدایہ کے عنوان سے یہ کیمپ 2005 سے جاری ہے۔ آصف حبیب نے بتا رہے تھے کہ اس سے قبل الہدایہ کیمپس Kelee یونیورسٹی، ہیتھرو پارک، آکسفورڈ، مانچسٹر کنونشن سنٹر میں منعقد ہو چکے ہیں۔ الہدایہ کے ذریعہ اہل برطانیہ و پورپ اقبال کے اس شعر
دی آذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کا مصداق بنے اور دیار کفر میں اللہ کی وحدانیت اور رسول کریم کے عشق کے ترانے گونجے۔