Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdul Hannan Raja
  4. Besat e Nabvi Ke Ikhlaqi Goshe Aur Ayaat e Elahi Ka Nigheban

Besat e Nabvi Ke Ikhlaqi Goshe Aur Ayaat e Elahi Ka Nigheban

بعثت نبوی کے اخلاقی گوشے اور آیات الہی کا نگہبان

"ورفعنا لک ذکرک" کی تشریح بصورت شعر، اگر سعید عباس کا حوالہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

انکی توصیف کا حق کون ادا کرتا ہے
جن کی تعریف جہانوں کا خدا کرتا ہے

شیخ سعدی شیرازی کا یہ مصرعہ مدحت رسول کے باب میں انسانی عجز کا خوب صورت اظہار۔

" بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر"۔

شک نہیں کہ عبقری شخصیات جب قلم اٹھاتی ہیں تو علوم و معرفت کے دریا بہتے نظر آتے ہیں۔ عشق و ادب رسول کے طوفان مچلنے لگتے ہیں۔ رحمت عالم کے مرتبہ وجود میں جلوہ گری، کمال حسن، منصب کی تابشوں، خصائل کی رعنائیوں اور رسالت کی کامیابیوں کو ایسی ایسی تشبیہات ترکیبات و استعارات سے پروتے ہیں کہ عقل دنگ اور زباں خاموش۔ سو مدحت رسول کی توفیق جسے میسر آ جائے سعادت۔

نہ رخش عقل نہ کسب و ہنر کی حاجت ہے
نبی کی نعت ریاضت نہیں سعادت ہے

نامور فلسفی، شاعر اور مستشرق جوہن گوئٹے نے کہا تھا کہ "حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کسی مقام پر بھی ناکام ثابت نہیں ہوتیں۔ ہمارے نظام ہائے تمدن اس سے اگے نہیں جا سکتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی انسان قرآن سے آگے جا ہی نہیں سکتا"۔

مگر کبھی سوچا کہ امتی ہو کر ھم ناکام کیوں؟ مستشرق اور غیر مسلم بھی آقا دو جہاں کی تعلیمات کو آفاقی اور کامیاب زندگی کا مآخذ جانیں۔ مگر ھم ان آفاقی اصولوں کو کہ جو کامیابی کی ضمانت، بطور نظام اپنانے سے گریزاں کیوں؟ یہ سوال پریشان کن ہی نہیں باعث شرمندگی بھی ہے کہ برس ہا برس سے ہم میلاد بھی منا رہے ہیں اور سیرت رسول پر وعظ و بیاں بھی سن رہے ہیں۔ مگر نہ بعثت نبوی کا مقصد سمجھا اور نہ زندگیاں سیرت رسول کے قالب میں ڈھلیں ! دعوی مسلمانی پھر بھی زور دار، اقبال نے بھی سمجھایا مگر سمجھ وہ بھی نہ آیا

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

آیات الہی کے نگہبان کو عرفان ذات نصیب نہ ہوا تو کامیابی و سرفرازی کیسے ملتی۔ یہ تو کرم کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے۔ دین متین پہ استقامت کے لیے عمار و یاسر اور بلال حبشی کی تکالیف کا سواں حصہ بھی نہ جھیلا، تو ایمان کی قدر و قیمت کا علم کیسا۔ فی الوقت صورت حال تو یہ ہے کہ ہم 1500 واں جشن میلاد اس حال میں منا رہے ہیں کہ انفرادی زندگی و اجتماعی کے اعمال و کردار اللہ کے حضور پیش کرنے کے قابل ہیں اور نہ بطور امتی اپنے نبی مکرم کو منہ دکھانے کے لائق۔ دلوں میں اضطراب، روحیں بے چین اور زندگی مضمحل۔ وجہ! اپنی زندگیوں کو اہنے اعمال و کردار سے اتنا بوجھل کر رکھا ہے کہ الاماں۔ بہتان، جھوٹ، دھوکہ دہی، بے حیائی، غیبت، حسد، بدعنوانی، قتل و غارت گری و انتہا پسندی غرضیکہ رزائل کی تمام صورتیں بدرجہ اتم معاشرے میں موجود، ان حالات میں مصطفائی معاشرے کا قیام کیونکر ممکن، بیسیوں تحریکیں اقامت دین اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں مگر عوام میں مقبولیت لادین اور سیکولر جماعتوں اور راہنماوں کی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عوام اسلامی بودوباش چاہتے ہیں اور نہ اسلامی نظام حکومت، کہ اس کے لیے انہیں اہنے چھ فٹ کے وجود کو شریعت کے قالب میں ڈھالنا پڑتا ہے چونکہ یہ پابندی قبول نہیں ! تو مطلب واضح کہ ہم شہادت کہ الفت میں قدم رکھنے کو تیار ہی نہیں اور رائج طرز حکومت و سیاست جسے اقبال واضح طور پر ابلیسی نظام کہہ چکے (پڑھیے اقبال کی مجلس شوری) کے اسیر ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ذاتی زندگیوں میں جب تبدیلی نہیں چاہتے تو معاشرتی و حکومتی نظام میں تبدیلی کیسے ممکن؟

اپنے نبی سے محبت کا تقاضا تو تھا کہ وہ اخلاق حسنہ اپنائے جاتے جو اس امت کا خاصہ و پہچان، مگر اس باب میں ہمارا سفر معکوس۔ انسان تو انسان ھمیں تو دیگر مخلوقات سے شفقت کا معاملہ کرنا تھا مگر ہم تو آپس میں دست و گریباں نفرت اور تعصب ہماری پہچان جبکہ جھوٹ، بہتان اور حسد جیسی اخلاقی بیماریوں نے تو گویا برباد ہی کر دیا۔

حقیقت تو یہ کہ ان گئے گزرے حالات میں اگر کسی خوش نصیب بندہ مومن کے دامن میں اخلاق حسنہ کے چند موتی ہیں تو وہ خوش بخت ہی امتی ہونے کا صحیح دعوی دار۔

تو کیوں نہ 1500 واں جشن میلاد اپنے کریم آقا کے عطا کردہ اخلاق حسنہ کو اپنی عملی زندگیوں میں لاگو کرکے منائیں۔ پہلے قدم کے طور پر دوسروں کے تاک میں رہنے کی کٹھن مگر دلچسپ ذمہ داری سے دست کش ہوں، اہنی اصلاح کم از کم تین معاشرتی رزائل جھوٹ، بہتان اور حسد سے توبہ کے ساتھ اور پھر اہل خانہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق۔ مذہبی و سیاسی عمائدین آقا کی امت کے لیے دل کشادہ اور بازوئے محبت پھیلائیں تو یقین جانیں کہ اس کے اثرات کارکنان تک آئیں گے۔ معاشرہ سے نفرت، تعصب اور انتقام کے جذبات مانند پڑیں گے تو ملی یک جہتی، قومی وحدت اور اتحاد و تنظیم کا رنگ غالب آ سکے گا اور ہم بھی اقبال کی اس آرزو کا مصداق بن سکیں گے۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

فی الحال تو ہم اپنوں کے لیے فولاد ہیں، بننا اغیار کے لیے تھا۔

کالم کے دوسرے حصہ میں غیر مسلم شعرا کا منتخب نعتیہ کلام، جو یقیناََ ایمان و ایقان کی تقویت کا باعث بنے گا۔

عاشق نہیں ہوں حسن جہان خراب کا
شیدا ہوں میں تو دل سے رسالت مآب کا

(دھنپت رائے)

دیر سے نور چلا اور حرم تک پہنچا
سلسلہ میرے گناہوں کا کرم تک پہنچا

تیری معراج محمد، تو خدا ہی جانے
میری معراج کہ میں تیرے کرم تک پہنچا

(کرشن بہاری)

ہر سمت رونما ہوا! جلوہ رسول کا
کیونکر نہ ہر زبان پہ ہو چرچا رسول کا

کیوں وجد آفریں نہ ہو احساس زندگی
گونجا ہے ساز روح پر نغمہ رسول کا

(شفق گھوپال)

طاقت کہاں بشر کی لکھے شان مصطفی
جب آپ ہی خدا ہو ثنا خوان مصطفی

عاشق! نبی کے عشق میں زر کی تو بات کیا
میری ہزار جان ہو! قربان مصطفی

(عاشق ہشیار پوری)

آقا جو محمد ہے، عرب اور عجم کا
بے مثل نمونہ ہے مروت کا کرم کا

حاصل ہے جنہیں تیرے غلاموں کی غلامی
لیتے نہیں کبھی نام وہ قیصر و جم کا

کہتے ہیں جسے اہل جہاں احمد مرسل
دریا ہے وہ الفت کا اور منبع ہے کرم کا

(منوہر لال)

اسی کی ہیں صبحیں، اسی کی ہیں شامیں
جو لیتا ہے ہر صبح! نام محمد

قیامت سے مجھ کو ڈراتا ہے ناصح
پتہ ہے کہ میں ہوں ! غلام محمد

(ناشاد سرجیت سنگھ)

بقول آکسفورڈ عالم کہ " محمد (صل اللہ علیہ والہ و سلم) کے سوانح نگاروں کا وسیع سلسلہ ہے کہ جس کا ختم ہونا ناممکن مگر ان کے سوانح نگاروں میں جگہ پانا قابل فخر چیز ہے"۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے سیرت نگاروں میں جگہ پانے کی آرزو نے سخن آرائی پہ مائل کیا ہے کہ شاید بے حجاب سجود کی لذت نصیب ہو جائے۔

لوح بھی تو قلم بھی تو، ترا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

شوکت سنجر و سلیم تیرے جمال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو، مری نماز کا امام
مرا قیام بھی حجاب، مرا سجود بھی حجاب

(اقبال)

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan