Adaab e Junoo Ehl e Mashriq Ko Sikha Do
آداب جنوں اہل مشرق کو سکھا دو

گوئٹے جہد مسلسل، تسخیر کائنات اور خودی کے قائل، مولائے روم تصوف و معرفت کے اکلیم اور ان کی شاعری کی بنیاد قرآن جبکہ وہ عشق کو سربستہ راز کھولنے کا محرک سمجھتے ہیں۔ ابتدا مرشد اقبال کی مثنوی سے
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے مآ
(اے عشق شاد و آباد رہ، کہ تو ہی ہماری علتوں اور بیماریوں کا طبیب ہے)
اے دوائے نخوت و ناموس مآ
اے تو افلاطون و جالینوس مآ
(اے عشق تو ہی ہمارے تکبر، نام و ناموس طلبی کی دوا پے اور تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس)
ایران کے حافظ شیرازی اور اقبال کے ہاں عشق فنی محرک گو کہ حافظ کبھی مجاز کی طرف بھی نکل جاتے ہیں مگر اس کے باوجود انہیں لسان الغیب کہا جاتا ہے۔ ایمرسن نے انہیں شاعروں کا شاعر کہا۔ اقبال کے ہاں عشق مقصدیت کے لیے اور وہ اسے خودی اور انقلاب کا محرک جانتے تھے۔
یوم اقبال کے موقع پر ان عظیم شاعروں کے ذکر کا مقصد اقبال کو منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کرنا اور یوم اقبال کی مناسبت سے نسل نو کو تاریخ اسلام کے عظیم مفکرین کا اجمالی تعارف اور ان سے اقبال کی فکری مماثلت کے ساتھ بیان کرنا ہے۔
ظاہر ہے کہ مجھ جیسا بے مایہ اقبال کے حضور کچھ کہنے لکھنے سے قاصر سو اس کے لیے عظیم حکما و شعرا کا سہارا لیا کہ جن کا اقبال کے کلام اور مزاج پر گہرا اثر ہے اور اس کا اظہار انہوں نے اہنے کلام میں بھی کیا۔ شاعر مشرق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انہی کے کلام سے چند موتی۔
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
اقبال جا بجا اپنے کلام میں انسان خصوصا مسلمان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیا کے جھمیلوں میں نہ پڑ اور اپنے مقام کو پہچان۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں، مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
ان کے ہاں بندہ مومن ملکوتی صفات کا حامل اگر وہ اپنے عمل و کردار سے اپنی ملکوتی صلاحیتوں کو بیدار کر لے۔
تو اے اسیر مکاں، لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ، تیرے خاک داں سے دور نہیں
اقبال کا مرد مومن اگر خودی کی حفاظت اور عقابی روح بیدار کر لے تو اس کی پرواز (تخیل) بلند اور پھر اک جہاں اس کے نور سے روشن ہوتا ہے۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں، تیرے نور سحر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تیری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تیری موج گرہ سے
شرمندہ ہو فطرت، تیرے اعجاز ہنر سے
اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنایا مگر وہ نفس کے چنگل میں اپنے مقام کو بھلا بیٹھا ایک مقام پہ فرماتے ہیں کہ
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کبھی شعلہ بھی ہوتا پے، غلام خس و خاشاک
مہر و مہ انجم نہیں محکوم تیرے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے، لرزتے نہیں افلاک
مسلمان اگر خدائے واحد کے آگے جبیں نیاز خم کر لیں تو دنیا کے طاقتوروں کے سامنے انہیں سر جھکانے کی حاجت نہیں رہتی۔ بندہ جب اللہ کا ہو جاتا پے تو مخلوق کے لیے سراپا خیر بن جاتا پے وہ دنیا سے بے نیاز اور در در کا سائل نہیں رہتا۔ اقبال کا فارسی کلام آتش عشق کو خوب مہمیز لگاتا ہے۔
گر بہ اللہ الصمد دل بستہ نی
از حد اسباب بیروں جستہ نی
(اگر تو نے خدائے بے نیاز سے دل لگایا ہے، تو پھر تو اسباب کی حدود پھلانگ گیا)۔
مسلم استی بے نیاز از غیر شو
اہل عالم را سراپا خیر شو
(اگر تو مسلماں ہے تو غیر سے بے نیاز ہو جا اور دنیا والوں (مخلوق) کے لیے سراپا خیر بن جا)
تا توانی کیمیا شو گل مشو
در جہاں منعم شور سائل مشو
(جہاں تک ہو سکے کیمیا بن مٹی نہ بن، دنیا میں غنا اختیار کر سائل نہ بن)
اقبال مسلمانوں کی زبوں حالی اور علم و تحقیق کے میدان میں انکی پس ماندگی سے بہت آزردہ تھے۔ ان کے نزدیک بندہ مومن کا مقام چرخ نیلی فام سے پرے تھا مگر وہ مومن کے درویشانہ اور فقیرانہ تصور کے قائل بھی نہ تھے۔
طایرش منقار بر اختر زند
آں سوے ایں کہنہ چنبر بر زَنَد
(یعنی مومن ایک ایسا پرندہ ہے جو تاروں کو دانے سمجھ کر ان پر چونچ مارتا ہے اور اس فضا میں پرواز کرتا ہے جو آسمانوں سے آگے ہے)۔
تو بہ پروازے پرے نگشودہ ئی
کرمک استی زیرِ خاک آسودہ ئی
مگر (اے مسلمان) تو نے پرواز کے لیے اپنے پَر نہیں کھولے، تو کیڑے کی طرح خاک کے اندر ہی خوش رہتا ہے)
خوار از مہجورئی قرآں شُدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شُدی
(اے مسلمان تو قرآن پاک (پر عمل) چھوڑنے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو چکا ہے اور گلہ و شکوہ گردش دوراں کا کرتا ہے)۔
بدقسمتی کہ دنیا بھر میں حریت کی تحریکوں کا محرک اقبال رہے مگر ہم نے اقبال کو یوم اقبال تک محدود اور سیاسی جلسوں میں مطلب برداری کے لیے رکھ چھوڑا۔ سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ لکھتے ہیں کہ سنٹرل ایشیا کے ممالک کی عوام جب سوویت یونین (روسی) قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو چوکوں چوراہوں میں جذبوں کو بیدار کرنے کے لیے ترک، تاجک یا ازبک نہیں بلکہ علامہ اقبال کی نظمیں سنائی جاتی تھیں۔ یہی نہیں کئی ایک ممالک میں علامہ اقبال کی نظمیں شامل نصاب ہیں۔ ایران میں تو آپ کو قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے۔ مگر آہ! اقبال نام کی حد تک ہی ہمارے قومی شاعر کہ ان کے افکار و نظریات سے منہ موڑ لیا حتی کہ خارج از نصاب بھی کر دیا۔ احیائے امت، فکری و نظریاتی ترقی اور اخلاقیات کی ترویج اقبال کے بغیر ممکن نہیں۔ ارباب اختیار کو اس پہ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

