دنیا کی کہانی، ایک سفیر کی زبانی
سفارتکاری کا ادارہ صدیوں پہلے پارلیمنٹ اور سول سروس کے وجود میں آنے سے بہت پہلے قائم ہوچکا تھا، ماضی میں ایسے قابلِ فخر افراد بھی سفارت کی ذمّہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔
جنھوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے ملک سے کبھی کچھ نہیں لیا بلکہ ذاتی وسائل سے سفاتخانوں کے لیے عمارتیں خرید کر حکومتِ پاکستان کو تحفے میں دے دیں، مگر بعد میں ایسے سفیربھی گذرے ہیں جنھوں نے اس صاف ستھری سروس میں بھی کرپشن کے راستے ڈھونڈھ نکالے اور سروس اور ملک کو بدنام کرکے چلتے بنے۔
1999میں پی آئی اے کے سیکیورٹی چیف کی حیثیّت سے مجھے دنیا کے مختلف ملکوں میں جانے کے مواقع ملتے رہے۔ سالانہ ٹکٹ ملا تو میں نے 2001 میں اسلامی ممالک خصوصاً شام اور عراق دیکھنے کا پروگرام بنایا، مگر ساتھ ہی ترکی اور یونان کو بھی شامل کرلیاکہ ترکوں کی محبت کا مشاہدہ کرنا اور سقراط اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے دیس کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔
میں استنبول سے ایتھنز کے ہوائی اڈّے پر اُترا تو پاکستانی سفارتخانے کے ایک اسمارٹ، خوش گفتار اور خوش اطوار افسر عامر شوکت نے (جسے میرے فارن سروس کے ایک دوست نے بتایا ہوا تھا) مجھے ریسیو کیا اور اپنے دفتر لے گیا۔
وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے عامر شوکت (جو آجکل سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر ہیں) سے پوچھ لیا کہ "آجکل یہاں پاکستان کے سفیر کون ہیں"؟ انھوں نے کہا"جاوید حفیظ صاحب ہیں، آپ آئے ہوئے ہیں تو انھیں بھی مل لیں۔ " چٹ بھیجی تو سفیرِ پاکستان نے فوراً بلالیا۔ سفیر صاحب غیرمعمولی گرمجوشی سے ملے اور ملتے ہی کہنے لگے "میں آپ سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔
آپ کے ماموں جان جسٹس چیمہ صاحب کو ہم چاچا جی کہہ کر بلاتے ہیں۔ " سفیر صاحب نے رات کو کھانے پر مدعو کیا تو میں نے اور پی آئی اے کے منیجر خواجہ صاحب نے ان کی خوبصورت رہائش گاہ پر انتہائی مزیدار کھانوں سے خوب انصاف کیا۔ بس اُس وقت سے جاوید حفیظ صاحب کے ساتھ عزّت و احترام کا رشتہ قائم ہے، وہ مختلف ملکوں میں پاکستان کی نمایندگی کرنے کے بعد بخیریّت ریٹائرمنٹ کی منزل تک پہنچے اور اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر ہوئے۔
اردو اور انگریزی کے علاوہ وہ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے ہیں اور عرب میڈیا پر عربی میں احوالِ عالم کا تجزیہ کرنے پر بھی قادر ہیں، جاوید حفیظ صاحب ایک روایتی بیوروکریٹ نہیں بلکہ دردِ دل رکھنے والے محبِّ وطن پاکستانی بھی ہیں جو سوچتا بھی ہے اور دل کا درد کاغذ پر بکھیر دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، وہ کئی سالوں سے اردو کے ایک روزنامے میں باقاعدگی سے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔
ان کی حالیہ کتاب ان کے کالم کے عنوان یعنی احوالِ عالم، کے نام سے ہی چھپی ہے جو سو سے کچھ زیادہ کالموں پر مشتمل ہے، مجھے اُن کی کتاب اتنی دلچسپ لگی کہ میں نے دونشستوں میں ہی پڑھ ڈالی۔ اکثر کالم نگار صرف سیاست بازی پر ہی قلم رگڑتے ہیں جب کہ سابق سول سرونٹس کا دائرۂ وسیع اور موضوعات میں بہت تنوّع ہوتا ہے۔ سفارتکاروں کی چونکہ میزبان ملکوں کے حکومتی حلقوں اور پالیسی سازوں تک رسائی ہوتی ہے۔
اس لیے ان کی معلومات کا معیار سیّاحوں سے کہیں بلند ہوتا ہے اور وہ قارئین کو کچھ اندر کی دلچسپ خبریں بھی بتا دیتے ہیں۔ کتاب کے تمام مضامین بڑے دلچسپ اور معلومات افزاء ہیں، اُن میں قومی اداروں بشمول سول سروس اور فارن سروس کے زوال کا نوحہ بھی ہے اور بہتری کے لیے تجاویز بھی ہیں۔ کالموں کا ذکر کریں تو ان کا پہلا کالم بھگت سنگھ ہمارے " بھگتیوں" کو ضرور پڑھنا چاہیے جو اُس کے نام پر چوکوں کے نام رکھنے پر مصر ہیں۔ سفیر صاحب لکھتے ہیں"حقیقت یہ ہے کہ بھارتی لابی کافی عرصے سے اس منصوبے پر کام کررہی تھی۔
1930 میں بھگت سنگھ نے لاہور میں ایک انگریز اے ایس پی مسٹر سانڈرز کو قتل کردیا تھا جس کے بعد وہ گرفتار ہوگیا اور اسے پھانسی دے دی گئی، بھگت سنگھ الحادی خیالات رکھتا تھا، اس نے سکھوں کی طرح داڑھی بھی نہیں رکھی،۔ ہمارے کالج کے زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی کے حامی طالب علم بھگت سنگھ کے گن گایا کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ مشترکہ ہیروز کی توقیر کا کام صرف پاکستان ہی میں کیوں ہو، سرحد کے اس پار کیوں نہیں؟ وزیرِاعظم نے کلدیپ نیر کو یہ تجویز کیوں نہیں دی کہ آپ بھی ہندوستان میں مسلم زعما کے نام پر سڑکوں اور چوکوں کے نام رکھیں،۔۔ 1993 میں بھارت کے دورے میں ہم تاج محل دیکھنے گئے تو انڈین گائیڈ نے اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں جو بکواس کی اس سے طبیعت بہت بوجھل ہوئی۔ " سفیر صاحب قارئین کو جن ملکوں کی سیر کراتے ہیں۔
ان میں ایک برما بھی ہے۔ وہ اپنے آرٹیکل میں بتاتے ہیں کہ " 1962 میں جنرل نی ون کی حکومت آئی تو مسلمانوں کو فوج سے فارغ کردیا گیا، مسلمان چونکہ خوشحال تاجر تھے لہٰذا ان کی جائیداد بحق سرکار ضبط کرلی گئی۔ یہاں کے صوبے ارکان کے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم ہورہا ہے، یہ لوگ سفر کرسکتے ہیں اور نہ ہی جائیداد خریدسکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی برما کے مسلمانوں (ROHINGYA)کو دنیا کی سب سے مظلوم اقلیّت مانتی ہے۔ "
اپنے مضمون "دو کشتیوں کے سوار" میں وہ دہری شہریت حاصل کرنے والوں کے حقوق اور کردار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "چین اور بھارت دہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتے لہٰذا جب چینی اور بھارتی باشندے غیر ملکی شہریت حاصل کرتے ہیں تو ان کی اصلی شہریت خودبخود ختم ہوجاتی ہے۔
وہ بھارتی شہری جو کسی بھی دوسرے ملک کی نیشنلٹی لے چکے ہوں، بھارتی پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنا تو دور کی بات، وہ ووٹ کا حق بھی کھودیتے ہیں۔ پاکستان میں اس سلسلے میں خاصا ابہام ہے۔ " اس اشو کی اہمیّت کے پیشِ نظر میں بھی اس پر بارہا لکھ چکا ہوں کہ اوورسیز پاکستانی صرف میزبان ملک کی سیاست میں حصہ لیں اور وہاں پالیسی ساز اداروں تک پہنچیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے وہاں بھی پارٹیوں کی شاخیں اور دفتر کھول رکھے ہیں اور انھیں پاکستانی سیاست میں حصہ لینے اور دیارِ غیر میں اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دینے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف تقسیم ہوکر کمزور ہوگئے ہیں بلکہ دنیا بھر میں خود بھی جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں اور ملک کو بھی بے توقیر کررہے ہیں۔
فاضل مصنّف سینٹرل ایشیاء میں بھی تعیّنات رہے ہیں، لہٰذا وہ قارئین کو مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کے آبائی علاقے فرغانہ اور سمرقند کی بھی سیر کراتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ سینٹرل ایشیاء کا ذکر ہو اور وہاں کے دانشوروں کی علّامہ اقبالؒ سے عقیدت اور محبت کا ذکر نہ ہو "اقبال، ایک مضبوط ثقافتی پل" کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، "مشہور جرمن دانشور ڈاکٹر این میری شمل نے اقبال کو مشرق اور مغرب کے درمیان پل سے تشبیہہ دی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ اور پروفیسر نکلسن نے اقبال کے فارسی کلام کے انگریزی تراجم کیے۔ 1952 میں تہران میں یومِ اقبال منایا گیا جس میں ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے خطاب کیا۔
ایرانی انقلاب کے رہنما آیت اللہ خمینی اپنے خطبات میں اکثر علاّمہ اقبال کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ " ایران کے موجودہ سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی بڑے فخر سے اپنے آپ کو مریدِ اقبال کہتے ہیں اور اقبال کا یہ شعر تو تمام پڑھے لکھے ایرانیوں کو یاد ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آیت اللہ خمینی اور ان کے انقلاب کی پشین گوئی تھی۔ ؎
می رسد مردے کہ زنجیرغلاماں بشکند
دیدہ ام ازروزن دیوار زندان شما
(ایک مرد ایسا آئے گا جو غلاموں کی زنجیر توڑ دے گا، میں نے یہ تمہاری جیل کی دیوار کے روزن سے دیکھا ہے)
لکھتے ہیں"میرے دو شنبے میں قیام کے دوران اقبال ڈے کی شاندار تقریب منعقد ہوئی،۔ کلیاتِ اقبال تاجک عوام تک پہنچانے میں اس وقت کے کمشنر افغان مہاجرین جناب عبداللہ صاحب کی کوششیں قابلِ قدر ہیں،۔ عرب دنیا میں اقبال کو متعارف کرانے کا اعزاز ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کو جاتا ہے جو 1950 کی دہائی میں پاکستان میں مصر کے سفیر تھے۔
ڈاکٹر عزام اور ایک مصری دانشور صاوی علی شعلان نے "شکوہ" کا عربی ترجمہ کیا اور عنوان "حدیث الروح" یعنی دل کی بات رکھا۔ اسے گا کر بلبلِ عرب اُمِ کلثوم نے اقبال کے کلام کو گھر گھر پہنچادیا۔ آخر میں لکھتے ہیں"اقبال پوری دنیا سے ہمکلام ہے، آئیے اقبال کے عظیم پیغام کو اقوامِ عالم سے رشتے قائم کرنے کے لیے پل بنائیں۔ "
کتاب میں" افلا تعقلون" (قرآنی الفاظ کہ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے،) کے عنوان سے ایک بڑا چشم کشا مضمون شامل ہے، "باتیں چند سفارتکاروں کی" میں جمشید مارکر سمیت کئی نامور سفیروں کی دلچسپ حکایتیں تحریر کی گئی ہیں، عرب اسپرنگ پر سفیر صاحب کا تجزیہ حقائق پر مبنی ہے، کتاب میں چند چھوٹے آدمیوں کے واقعات کے ساتھ بڑے آدمیوں کے تذکرے بھی بہت ملتے ہیں، جن میں جدید جرمنی کی عظیم رہنما انجیلا مرکل بھی شامل ہیں جن کی سادگی، قابلیّت اور قانون کی حکمرانی سے وابستگی ہماری تمام خواتین سیاستدانوں کے لیے مشعلِ راہ ہونی چاہیے۔ "کامیاب قوموں کے اطوار" ہر پڑھے لکھے شخص کو پڑھنا چاہیے۔
"پاکستان کی عہد ساز شخصیات" بلاشبہ inspire کرنے والے کالم ہیں۔ کتاب کے فاضل مصنّف میرٹ کی پامالی پر حکمرانوں کو بار بار تنبیہ کرتے ہیں۔ اربابِ بست و کشاد نے اگر گورننس بہتر نہ کی اور میرٹ کی پامالی جاری رکھی تو پھر جہاز میں سر درد کے لیے Bullet مانگنے والے افراد ہی ملک چلائیں گے۔