چولستان میں غریب خاندان کی خودکشی
چولستان پاکستان کا عظیم صحرا ہونے کی وجہ سے غربت اور پسماندگی کا شکار خطہ ہے، گزشتہ ہفتے چولستان میں غربت کے باعث ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تفصیل کے مطابق ڈسٹرکٹ رحیم یار خان کے چک 135/Pکا رہائشی ہندو رام چند جو کہ درزی کا کام کرتا تھا اور کام نہ ہونے کے باعث غربت کا شکار تھا۔ گھریلو جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہو کر رام چند نے تیز دھار آلہ سے اپنی بیوی لکشمی مائی، کمسن بیٹے پریم کمار، بیٹیوں انیکا اور انجلی کے گلے کاٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد خود بھی اپنی شہ رگ کاٹ لی، اہل علاقہ کی اطلاع پر پولیس نے کمرے کا دروازہ توڑ کر دیکھا تو بیوی اور بچے قتل ہو چکے تھے، جبکہ رام چند شدید زخمی تھا، اسے شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپریشن کے دوران دم توڑ گیا۔ اس واقعے سے ہر شخص غمزدہ ہے اورچولستان میں خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ واقعے کی غیر جانب دارانہ تفتیش ہونی چاہیے، اس مقصد کے لئے کمیشن بننا چاہیے اور لواحقین کو انصاف ملنا چاہیے، بلاشبہ رام چند اور اُن کاخاندان صدیوں سے چولستان میں آباد ہے۔ وہ کیوں غریب رہا؟ اس بناء پر کہ چولستان میں زمینوں کی جو بندر بانٹ ہو رہی ہے اور شکار کے نام پر عرب شہزادوں تک کو نوازا جا رہا ہے مگر مقامی لوگ محروم ہیں۔ موجودہ حکومت محرومی کے خاتمے کے وعدے پر برسراقتدار آئی مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوا ہے۔ چولستان کے المناک سانحے کے بعد وسیب کے مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز دیگر علاقوں کے علاوہ ملتان میں بھی سرائیکی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ملتان پریس کلب کے قریب چوک نواں شہر میں احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اپنے وعدے کے مطابق بیروزگاری کے خاتمے کے لئے وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں، یہ بھی کہا گیا کہ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے جو الاٹمنٹوں کے سلسلے میں اصل حقداروں کو محروم رکھتی ہے، اور اسی محرومی کی کوکھ سے غربت، غربت کی کوکھ سے نفرت اور نفرت کی کوکھ سے خود کشی اور بعض حالات میں خود کش حملہ آوری جنم لیتی ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے 10سال کے لئے ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو موقوف کر کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جائے گی، مگر 73سال ہو گئے ترقی یافتہ علاقے مزید ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقے پسماندہ ترین ہو گئے۔ جہاں تک آئین کی بات ہے تو اسے کون پوچھتا ہے۔ تمام خرابیاں آئین پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ کیا کبھی ایسے ہو گا کہ آئین پر عملدرآمد ہو؟ تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے کی وجہ سے نوجوانوں کو وزیراعظم سے بہت توقعات تھیں مگر اڑھائی سال میں کچھ نہیں ہوا، پاکستان جانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے، میری باتوں سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ خدانخواستہ آنجہانی رام چند اور اُن کے کنبے کو پاکستان میں مذہبی آزادی حاصل نہ تھی۔ خود کشی کا واقعہ غربت کا شاخسانہ ہے۔ صحیح اور حقیقی بات یہ ہے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے، ترقی یافتہ سوچ کے مطابق شہری حقوق کی اسی مساوات کے پیش نظر، پاکستان کے آئین میں مذہب کی آزادی کے بارے میں ایک مستقل دفعہ موجود ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:قانون، امن عامہ اور اخلاقی حدود کے اندر ہر شخص کو کسی بھی مذہب پر کار بند ہونے اور اس کی ترویج کا حق حاصل ہو گا۔ اسی طرح ہر مذہبی فرقے کو اپنی عبادت گاہیں بنانے اور ان کی حفاظت کا حق حاصل ہو گا۔" یہ درست ہے کہ مذہب اعلیٰ ترین چیز کا نام ہے اور فرقہ پرستی مذہب کو کمزور کرکرتی ہے۔ لیکن بد قسمتی کہیے کہ فرقے بھی موجود ہیں، اس لئے مختلف فرقوں کو بھی ان کی اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا گیا۔ آئین کے حوالے سے یہ بات ہوئی ہے کہ کسی فرد سے ایسے مذہب کے لئے ٹیکس نہیں لیا جائے گا جو اسے ناپسند ہو، اور نہ ہی ایسا ٹیکس نافذ کیا جائے گا جس کی آمدنی سے ا یسے مذہب کی تبلیغ مقصود ہو جو اس کا اپنا مذہب نہ ہو۔ تمام مذاہب انسان اور انسانیت کی بہتری کے لئے ہیں اس لئے انسانی ترقی کے حوالے سے کام ہونا چاہیے۔ آئین کے مطالعے سے بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں جیسا کہ کسی بھی فرد کو تعلیمی اداروں میں ایسے مذہب کی تعلیم کے حصول کے لئے یا عبادت کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا جو اس کا اپنامذہب نہ ہو۔ مذہبی اداروں پر ٹیکس کے نفاذ کے ضمن میں کسی طبقے سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ آئین میں یہ بات بھی ہے کہ ہر مذہبی گروہ کا اپنے طلبہ کے لئے مذہبی تعلیم کا انتظام اس کا بنیادی حق ہے۔ اسی طرح شہریوں پر تعلیمی اداروں کے د اخلے کے ضمن میں نسل، مذہب، سکونت اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی، بشرط کہ وہ ادارہ حکومت کے سرمائے سے چل رہا ہو۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی کا حوالہ اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے ہر آئین میں مذہبی آزادی کو انسانی حقوق کے ساتھ جوڑا گیا ہے، پاکستان میں جتنے بھی آئین بنے اُن میں مذہبی آزادی کی بات کی گئی۔ موجودہ 1973ء کے آئین کو دیکھیں اس میں بھی پاکستان میں مذہب کی مکمل آزادی ہے، آئین کی رو سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی۔ قائد اعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے اولین خطاب مورخہ11اگست1947ء میں اس ضمن میں کچھ ارشاد فرمایا تھا، وہ قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے اپنے خطاب میں اقلیتوں کاذکرتے ہوئے فرمایا:"آپ اب آزاد ہیں۔ آپ عبادت کے لئے اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ مملکت پاکستان میں اپنے عقید ے کے مطابق اپنی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ خواہ کسی مذہب فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ کچھ عرصہ قبل انگلستان میں حالات آج کے ہندوستان سے بھی بدتر تھے، رومن کیتھو لک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ مگر یورپی ممالک مذہبی فرقہ بندیوں کو ایک طرف کر کے تعلیم اور ایجادات کی طرف آئے اور آگے بڑھ گئے۔