سچائی، آزادی اور انصاف کی آواز
مجھے وہ فضائی سفر یادآ رہا ہے جو شاید دو برس پہلے میں نے کیا تھا۔ چھوٹا سا ہوا جہاز مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں ہر عمر کے ہزارہ افراد سوار تھے۔ میری نگاہ اس نوجوان لڑکی پر جم گئی جو خوش رو تھی۔
اس کی کھنچی ہوئی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتی ہے اس کی گود میں بہ مشکل سال سوا سال کا بچہ تھا جسے دیکھ کر دل بے اختیار اس کی طرف کھنچتا تھا۔ وہ اسے دلار کررہی تھی اور بچہ بھی کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ میں اس سے بات کیے بغیر نہ رہ سکی۔ وہ بچے کی خالہ تھی اور اسے لے کر سات سمندر پار جا رہی تھی۔ کہاں کوئٹہ اور کراچی اور کہاں آسٹریلیا۔ میں نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا۔
"ہمارے چہرے اور ہماری آنکھیں چغلی کھاتی ہیں کہ ہم کون ہیں۔ ہمارے بہت سے بھائی بھتیجے مارے جا چکے ہیں۔ ہماری کتنی ہی لڑکیاں برباد ہوگئیں۔ میں اپنے بھانجے کو لے کر جا رہی ہوں۔ ایک ایسی سرزمین پر جو ہماری نہیں، جسے ہم نہیں پہچانتے۔ ہم اپنے قبیلے اور اپنی قوم سے دور جا رہے ہیں لیکن زندگی کے تعاقب میں آپ کہاں نہیں جاتے۔ اس طیارے میں میری کئی رشتہ دار ہیں۔
وہ گریجویٹ تھی۔ ادب سے اسے شغف تھا، مجھے میرے نام سے پہچان گئی۔ ہم اخبار نہ پڑھیں تو کیا کریں۔ میں ایک ایک سطر پڑھتی ہوں۔ شاید کسی جملے سے مجھے اپنے کھوئے ہوئوں کا سراغ مل جائے۔ اس کے لہجے میں حزن تھا۔ وہ اس قبیلے کی تھی جس کے سیکڑوں لوگ لاپتہ ہیں۔ مفقود الخبر۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جنوبی امریکا کے کئی ملکوں کی پولیس سے ہمارے سورمائوں نے بھی سبق سیکھا۔ پہلے وہ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو گڑھے کھود کر دفن کر دیتے تھے۔ اب شاید ان کو تشدد کا نشانہ بنا کر، لباس سے محروم کر کے سمندر کے سپرد کر دیتے ہیں، مچھلیوں کا کھاجا، ہڈیاں تہہ میں جا بیٹھتی ہیں۔ غالبؔ یاد آتے ہیں۔ انھوں نے بھی نہ جنازہ اٹھنے کی بات کی تھی اور نہ مزار بننے کی۔
میں اس چہکتے ہوئے بچے کو دیکھتی ہوں۔ سیاہ کرتے اور سفید شلوار میں، ہاتھ میں منت کا کڑا۔ چاندی کا یہ کڑا کب تک اس کی حفاظت کرے گا؟ میں کپکپاکر رہ جاتی ہوں۔
اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ایک معاصر انگریزی اخبار کی چار کالمی خبر ہے۔ کوئٹہ سے آنے والی اس خبر میں سپریم کورٹ نے اس پولیس رپورٹ کو رد کر دیا ہے جس میں ہزارہ افراد کے قتل اور ان کے مفقود الخبر ہونے کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صبح سے شام اور رات تک نان کسٹم پیڈ گاڑیاں سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں، وہ بے دریغ فائرنگ کرتی ہیں اور دوسرے غیر قانونی کام کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جو چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تھا۔ کوئٹہ رجسٹری میں اس نے ہزارہ لوگوں کے قتل اور ان کے مفقود الخبر افراد کے بارے میں ایک پولیس رپورٹ کو رد کر دیا۔ یہ رپورٹ ایس ایس پی کرائم برانچ (انویسٹی گیشن) محمد اکبر رئیسانی کی طرف سے داخل کی گئی تھی۔ جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ آپ پی ایس پی افسر ہیں لیکن اس بات سے ناآشنا ہیں کہ اس نوعیت کے کیس کی تفتیش کس طور کی جائے۔ بجائے اس کے کہ آپ خود جا کر تحقیقات کریں اورآگے بڑھ کر لاپتہ ہو جانے والے افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں، آپ شاید اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ لوگ خود اپنے بارے میں بتائیں گے۔
معزز جج حضرات کا کہنا تھا کہ کوئٹہ ایس ایس پی غلام اصغر لاپتہ لوگوں کے بارے میں بتائیں، انھوں نے چند پولیس افسران کے بارے میں کہا کہ ان کو ان کے عہدوں سے برخاست کر دینا چاہیے تھا۔ وہ رشتہ دار جنھوں نے لاپتہ افراد کے بارے میں درخواست دی تھی وہ عدالت میں موجود تھے۔ معزز عدالت نے اس بارے میں ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایس ایس پی کرائم برانچ اپنی وردی کے بجائے شہری لباس میں موجود تھے۔
معزز جج کا کہنا تھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ لاپتہ افراد کے بارے میں تحقیق کرنے اور مقدمہ درج کرنے کے لیے ان کے رشتہ دار مارے مارے پھرتے ہیں لیکن شنوائی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران کو یہ نہیں معلوم کہ ان کو تحقیق کس طور کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو 2017 اور 2018 سے لاپتہ ہیں ان کو بازیاب کرانے کے لیے پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ چیف جسٹس صاحب کا فرمانا تھا کہ مفقود الخبر افراد کی تحقیقات کی ذمے داری ایس ایس پی (آپریشنل) کوئٹہ کی تھی لیکن افسوس کہ وہ اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔
ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ لوگوں کی تحقیق کے لیے ایک خط ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آر کو لکھا گیا تاکہ ان لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کی جا سکے۔ اس میں معزز چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کاکام مختلف محکموں کو خط لکھنا نہیں بلکہ جرم کی تحقیقات کرنا ہے۔
معزز جج حضرات کا کہنا تھا کہ جس افسر نے گم شدہ افراد کے بارے میں رپورٹ تیار کر کے پیش کی ہے، وہ نا اہل ہے اور اسے عہدے سے فارغ کر کے گھر بھیج دینا چاہیے۔
یہ اکتوبر کا مہینہ ہے اور اس مہینے کی مختلف تاریخوں میں اور اس کے بعد بھی نوبیل انعام دیے جاتے ہیں۔ اس میں ایک انعام وہ بھی ہے جو دہشتگردی کے خلاف جہاد کرنے والوں اور امن کا پرچم لہرانے والوں کو دیا جاتا ہے۔ مجھے 1980 کا ایدولفو پیرے اسکیویل کا وہ امن خطبہ یاد آ رہا ہے جو ارجنٹائن اور پورے لاطینی امریکا میں جدوجہد کرتے رہے۔ انھوں نے 1980 وہ خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس انعام کو حاصل کرتے ہوئے میں نے فوراً ہی اپنے آپ سے کہا تھا کہ میں اس کو اپنے ذاتی وقار کے لیے نہیں بلکہ لاطینی امریکا کے عوام، بالخصوص مفلس، سب سے چھوٹے، ضرورت مند، مقامی کسان، مزدور، جوان اور کئی ہزار مذہبی ارکان کی جانب سے وصول کروں گا جو ہمارے براعظم کے شدید بے آسائش مقامات پر کام کرتے ہیں اور ان تمام افراد کی جانب سے بھی جو غلبے سے مبرا، سماج کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
میں اپنی توجہ کا رخ لاطینی امریکیوں کی اذیتیوں اور امیدوں کی طرف موڑنا چاہوں گا۔ کسی سیاستداں یا سماجیات کے ماہر فن کی حیثیت میں نہیں، بلکہ ایک آدمی کی حیثیت میں جو اپنے عوام کی انسانی حقوق کی روزمردہ جدوجہد میں ان کے ساتھ ہو، ان اقدار کا معترف ہو اور جو ان کی امیدوں، عقائد اور مکمل آزادی میں برابر کا شریک ہو۔
انھوں نے نوبل امن کمیٹی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے معززین سے کہا تھا:ہماری آواز ان لوگوں کی آواز بننا چاہتی ہے جن کی کوئی آواز نہیں ہوتی، جو نکالے ہوئے ہیں جو فروتن ہیں، جو کمزور اور حقیر ہیں۔
ہمارے ہاتھ ان کی زبان بولنا چاہتے ہیں جو محنت کرتے ہیں، جو ان کوششوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں جن کے ذریعے نیا عالمی اتفاق ترتیب ہو، جس کی بنیاد محبت، انصاف، آزادی اور سچائی پر ہو۔
سچائی، آزادی اور انصاف کے معاملات ہمارے معززین جج صاحبان کی نظر میں ہیں، وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں، اسی لیے ایک ناقص رپورٹ کو رد کرتے ہیں اور اس شخص کو ملازمت سے سبکدوش کر دیتے ہیں جس نے اتنی ناقص رپورٹ لکھی جو ناانصافی پر مبنی تھی۔ جس میں بے گناہوں کو قتل کرنے یا انھیں لاپتہ کر دینے کے معاملے کو ذرا سی بھی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ ہمیں اپنے معزز جج حضرات کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ابھی تک انصاف پر عوام کا ایمان متزلزل نہیں ہونے دیا ہے۔
وہ ہزارہ بچہ جو اب بڑا ہو گیا ہو گا، دوڑتا، بھاگتا پھرتا ہو گا۔ آسٹریلیا کے کسی دور افتادہ علاقے میں قہقہے لگاتا پھرتا ہو گا، جس کی خالہ اسے دیکھ کر شادمان ہو گی کہ وہ صرف اس لیے قتل ہونے اور لاپتہ ہونے سے بچ گیا کہ وہ ہزارہ نسل سے ہے۔ میری دعا ان سب کے لیے جو نسلی اور مسلکی بنیادوں پر قاتلوں کا نشانہ بنتے ہیں۔