نئے دور کے نئے تقاضے
دنیا میں حالات جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، اس کے مظاہر مختلف ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔ بار بار جب یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا ایک عالمی گائوں میں بدل رہی ہے تو اس کے کئی معنی ہوتے ہیں۔
اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کوئی ملک عالمی برادری میں سب سے کٹ کر الگ اور تنہا نہیں رہ سکتا، کیونکہ معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ملکوں کے مالی و تجارتی مفادات آپس میں زیادہ گہرے ہوگئے ہیں جس کا منطقی تقاضہ ہے کہ خارجہ تعلقات میں بھی تبدیلی لائی جائے۔ ماضی کے دشمن دوست بن رہے ہیں اور پرانے دوستوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ دشمنی گھاٹے کا سودا ہے اور یہ سودا زیادہ دیر تک چلے گا تو معیشت کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہر چھوٹے بڑے ملک کی قیادتیں اس تجزیے میں مصروف ہیں کہ خارجہ تعلقات نئے سرے سے کس طرح استوار کیے جائیں اور پرانے دوستوں کو ناراض کیے، بغیر نئے دوست کیسے بنائے جائیں تاکہ ترقی کا عمل رکنے کی بجائے تیز تر ہوتا چلا جائے۔
مذکورہ بالا تناظر میں بڑی دلچسپ بحثیں ہورہی ہیں۔ حکمران اور تجزیہ نگاروں کا ایک بڑاحلقہ پرانی سوچ اور مفروضوں پر بدستور قائم ہے۔ اس کے برعکس دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ پرانے سیاسی اور نظریاتی مفروضے ناکارہ ہوتے جارہے ہیں لہٰذا وقت ضایع کیے بغیر پوری صورت حال کا از سر نو جائزہ لے کر ہر شعبے میں بنیادی تبدیلی کا عمل شروع کردیا جائے۔
ایک پرانا مفروضہ یہ تھا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اب چین اور امریکا میں سرد جنگ شروع ہوجائے گی اور دنیا بہت جلد دوبارہ دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ بہت سے ملک چین کے ہم نوا ہوں گے اور کئی ملک امریکا کے کیمپ میں چلے جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تلخی اور بعض اوقات محاذ آرائی ضرور نظر آتی ہے لیکن اس میں وہ شدت کبھی نہیں آتی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔ ایسا کیوں ہے اس کے بعض اسباب ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان وہ نظریاتی جنگ نہیں ہے جو کبھی سوویت یونین اور امریکا کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ چین پر کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی ہے اور سرخ پرچم لہرا رہا ہے لیکن وہاں منڈی کی معیشت جسے مارکیٹ اکنامی کہا جاتا ہے بڑی تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ ہم اب تک بارہ گھرانوں کو روتے اور دنیا کے ارب پتیوں کی مثالیں دے کر اپنے دل جلاتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ چین میں ارب پتی افراد کی تعداد 629 تک جاپہنچی ہے۔
مزید چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ مارچ 2020 کے بعد اس تعداد میں 239 نئے ارب پتی شامل ہوگئے ہیں۔ عالمی ادارے فوربس نے 10 امیر ترین چینیوں کی فہرست جاری کی ہے، ان میں دس ارب پتی 447 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ جب دنیا کے بہت سے ارب پتی افراد پچھلے ایک سال کے دوران دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے تو چین کے ان 10 ارب پتی لوگوں کی دولت میں 224 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔
یہ جان کر بہت سے قارئین کو حیرت ہوگی کہ دنیا میں ڈالر کے حوالے سے کل ارب پتی لوگوں کی تعداد 2755 ہے۔ جن کے پاس کل 13.1 کھرب ڈالر موجود ہیں جب کہ اس دولت کا 1/5 حصہ صرف چین کے ارب پتیوں کا ہے۔ چین میں ارب پتی کاروباری افراد کو یہ عروج کیسے حاصل ہوا، اس کے بارے میں ایک الگ کالم لکھا جاسکتا ہے۔ تاہم، یہاں اس کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا کہ آج کے چین کا معاشی نظام ماضی کے سخت گیر منڈی مخالف نظام کی طرح کا نہیں ہے۔
امریکا اور دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کی طرح یہاں بھی معیشت نظریاتی نہیں بلکہ معاشی اصولوں اور تقاضوں کے تحت چلائی جارہی ہے۔ اب امریکا اور چین تجارتی مسابقت ضرور رکھتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کام اس وقت ہوتا ہے جب محاذ آرائی یا جنگ نظریاتی ہو اور مقصد یہ ہو کہ ایک نظریہ دوسرے نظریے پر غالب آجائے۔
جو ملک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چین اور امریکا کے مابین کاروباری مسابقت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ چین کبھی امریکا کے خلاف ایک حد سے آگے نہیں جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اس وقت امریکا کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان 558 ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ اس دو طرفہ تجارت میں چین کو امریکا کی برآمدات 106 ارب ڈالر کی ہیں جب کہ امریکا میں چین کی درآمدات 451 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔
ان اعدادو شمار کو دینے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ چین اس دو طرفہ تجارت میں ہر سال 345 ارب ڈالر کا فائدہ حاصل کرتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ امریکا کو اس مالیت کا غیر معمولی تجارتی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ہم معاملات کو معروضی حقائق میں دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں گوارا کرتے کہ کیا چین، امریکا سے تعلقات کو بدترین حد تک لے جاکر اپنی معیشت کا اتنا بڑا نقصان کرے گا؟
چین ایک دانش مند قوم ہے، اسی دانش مندی کی وجہ سے کمیونسٹ چین سابق سوویت یونین کی طرح منہدم ہونے سے اب تک محفوظ ہے۔ آج کے دور میں چین، امریکا دشمنی کے پرانے مفروضوں پر جو بھی خارجہ پالیسی بنائی جائے گی اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا کیوں کہ چین کی ترقی میں امریکا کا اہم کردار ہے لہٰذا وہ اپنے سب سے بڑے تجارتی ساتھی امریکا کے ساتھ تجارت کو زیادہ آگے بڑھانے کی حکمت عملی پر کار بند رہے گا۔
امریکا اور چین کے مابین گہرے معاشی تعلقات کا اندازہ اس امر سے بھی لگانا چاہیے کہ 2019 میں چین کی جانب سے امریکا میں 2.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی جو 2020 میں بڑھ کر 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب چین بہ مقابلہ امریکا کے سازشی مفروضوں پر خوب تجزیے کیے جا رہے ہیں، امریکا میں چینی سرمایہ کاری میں اتنا بڑا اضافہ ان تجزیوں کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
بات چل ہی نکلی ہے تویہ بھی بتا دیا جائے کہ امریکا کی کئی انتہائی بڑی کمپنیوں کے اکثریتی سینٹرز چین خرید چکا ہے، ان میں جنرل موٹرز، اسنیپ چیٹ، ہلٹن ہوٹلز اورجنرل الیکٹرک … جیسی دیوہیکل کمپنیاں شامل ہیں۔ مشہور امریکی والٹ ڈزنی کمپنی کے اکثریتی 57 فیصد حصص کی مالک شنگھائی گروپ نامی کمپنی ہے۔ بات یہیں تمام نہیں ہوتی آگے بڑھیں تو معلوم ہوگا کہ چین امریکا کی 92000 ایکڑ زرعی اراضی کا مالک بھی ہے جس کی کل مالیت تقریباً 2 ارب ڈالر کے مساوی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے ایک ہزار ارب ڈالر کو امریکی ٹریژری سیکیورٹیز بھی خرید رکھی ہیں۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کی کمپنیاں بھی 2020 تک چین میں 123.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی ہیں۔
ایک اور پرانا مفروضہ جو اب دم توڑتا نظر آرہا ہے یہ ہے کہ چین اور ہندوستان کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی جس سے بہت سے فوائد اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا کہ اس مفروضے میں کافی جان تھی لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اب حالات ماضی جیسے نہیں رہے ہیں۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ چین اور ہندوستان کے درمیان تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہوتا اگر کووڈ کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں کمی واقع نہ ہوئی ہوتی۔ اس دو طرفہ تجارت میں ہندوستان کو 56.12 فیصد نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
اس تناظر میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ چین ہندوستان سے تجارت اور کاروبار میں زبردست فائدہ حاصل رہا ہے اور مستقبل میں دونوں ملکوں کی تجارت میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے ہندوستان سے سرحدی تنازعات کو پس پشت ڈال کر معاشی رشتوں کو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ متنازعہ سرحدوں پر تعینات افواج کو غیر مسلح کردیا گیا ہے، اب ان کے پاس ڈنڈے اور لاٹھیاں ہوتی ہیں، کبھی حالات کشیدہ ہوجائیں تو نوبت جسمانی لڑائی اور کشتی تک پہنچ جاتی ہے۔ چین و ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط کے سیاسی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ چین اب اپنا رویہ اور خارجہ پالیسی کارخ بدل رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب چین سیکیورٹی کونسل میں اپنے دوستوں کے حق میں ویٹو پاور استعمال کیا کرتا تھا۔ اس ضمن میں وہ اب اتنا پرجوش نہیں رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ افغان حکومت کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا جو اجلاس بلایا گیا تھا اس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ چین سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والا مستقل رکن ہے۔ وہ چاہتا تو اجلاس بلانے اور اجلاس کے اعلامیہ کو ویٹو کرسکتا تھا۔
کہنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پرانے مفروضوں کی روشنی میں تجزیہ اور فیصلہ کرنے سے گریزکیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آج کے دور کے نئے تقاضے کیا ہیں۔