حکومتیں خبردار ہوجائیں
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ دنیا نے گزشتہ 30برسوں میں بے مثال ترقی کی ہے، لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے اور ایک ایسانیا متوسط طبقہ وجود میں آیا ہے جو معقول حد تک قوت خرید بھی رکھتا ہے۔ تاہم، بعض حقائق ایسے ہیں جن سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔
ان میں سے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ 21ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر بھی سال میں دنیا کے 73 کروڑ 60 لاکھ انسان انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں بچوں کی حالت زار بہت تشویش ناک ہے، بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف کا کہنا ہے کہ دنیاکا ہر تیسرا بچہ عذاب ناک حالات میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ زندگی کی بنیادی اور فوری ضروریات سے محروم ہے۔
معصوم بچے بھی طبقاتی تقسیم کا بدترین شکار ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غریب ترین ملکوں میں بچپن میں مرجانے والے بچوں کی تعداد امیر ملکوں میں مرنے والے بچوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔ یہ طبقاتی تفریق خوش حال ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے، جہاں ہر 7 میں سے 1 بچہ غربت کا شکار ہے اور یورپ میں ہر 4 میں سے 1 بچہ کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت غربت کی سطح پر جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق اس وقت دنیا میں 5 سے 7 سال کی عمر تک کے 15 کروڑ 20 لاکھ بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔ بچوں کی حالت زار کے حوالے سے دل دہلا دینے والے اعدادو شمار سامنے آئے ہیں، یہ ظاہرکرتے ہیں کہ مزدور بچوں کی 70.9 فیصد تعداد زراعت، 17.1 فیصد خدمات کے شعبوں جب کہ 11.9 فیصد تعداد سے صنعت کے شعبے میں محنت کرائی جاتی ہے۔ مزدوری کرنے والے بچوں میں 6کروڑ 40 لاکھ لڑکیاں اور 8 کروڑ 80 لاکھ لڑکے شامل ہیں۔ بچوں سے سب سے زیادہ مشقت افریقا، اس کے بعد ایشیا پیسفک اور عرب ریاستوں میں لی جاتی ہے۔
دنیا میں 18 سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد تقریباً 2ارب 30 کروڑ ہے۔ ان میں سے 31 کروڑ بچے بڑی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں جتنے بھی غریب انسان رہتے ہیں ان کی کل تعداد کا 50 فیصد بچوں پر مشتمل ہے۔ سب سے خوفناک حالات افریقا میں ہیں جہاں 22 کروڑ 80 لاکھ افراد اس قدر اذیت ناک حالات سے دوچار ہیں کہ ہم اور آپ جس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ جہاں تک ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا کا تعلق ہے تو یہاں 16 کروڑ 70 لاکھ بچوں کو تعلیم، صحت اور مناسب خوراک کی سہولت دستیاب نہیں ہے اور ان سے مختلف شعبوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں بچوں کی 11 فیصد تعدادجسمانی مشقت کرتی ہے۔
پاکستان میں بچوں کا مسئلہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے سے بچوں اور نوجوانوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 2.4فیصد ہے۔ 25 سال تک کی عمر والے بچوں اور نوجوانوں کی تعداد ملک کی آبادی کا 52.50 فیصد ہے۔
پاکستان میں 8 کروڑ بچے شدید محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 20 فیصد بچے شہروں میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر بچوں کو بنیادی سہولتیں میسر ہیں لیکن ان کا معیار کافی خراب ہے۔ ملک چونکہ معاشی مسائل کا شکار ہے اور غربت کی سطح 50 فیصد تک پہنچ چکی ہے لہٰذا ان غریب افراد میں سے 24 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہ وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔
آج کل کورونا وائرس کی وبا دنیا میں تباہی مچا رہی ہے۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ اس وائرس سے بچے کم متاثر ہورہے ہیں۔ بہت سے لوگ بالخصوص والدین اس بات پر بجا طور پر مطمئن ہیں کہ ان کے بچے نسبتاً زیادہ محفوظ ہیں۔ ہم سب کی آرزو ہے کہ بچے جو ہمارا مستقبل ہیں انھیں اس وبا سے زیادہ نقصان نہ پہنچے لیکن جس بات پر غور نہیں کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عالمی وبا جو معاشی تباہ کاری برپا کررہی ہے اس کا بدترین شکار بالآخر ہمارے بچے اور نوجوان ہوں گے۔ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے بے پناہ مالی وسائل کی ضرورت ہے۔
امریکا اور یورپ کے ترقی یافتہ اور امیر ملک بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی مالی وسائل محدود ہیں۔ ان ملکوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک نظرنہ آنے والا وائرس چند مہینوں کے اندر لاکھوں انسانوں کر بیمار اور ہلاک کرنے کے ساتھ انھیں معاشی طور پر تباہ بھی کردے گا۔ اس وقت دنیا کے تمام ملکوں نے اپنے مالی وسائل کا رخ موڑ دیا ہے، اب اسے لوگوں کی زندگیوں اور معیشتوں کو بچانے کے لیے خرچ کیا جارہا ہے۔
جن مالی وسائل کو اس وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیاجارہا ہے اس کا بڑا حصہ ماضی میں ترقیاتی کاموں، سماجی بہبود، صحت اور تعلیم کے شعبوں پر خرچ کیا جارہا تھا۔ یہ وبا جب بھی ختم ہوگی اس وقت تک دنیا کے زیادہ تر ملک مالی طور پر تقریباً کنگال ہونے کے قریب پہنچ چکے ہوں گے۔ عالمی سطح پر اس وقت جو کساد بازاری ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، مستقبل میں یہ کساد بازاری اور بڑھے گی اور حکومتوں کے پاس اتناسرمایہ نہیں ہوگا کہ جسے وہ غریبوں طبقوں بالخصوص بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرسکیں۔
دنیا میں 143 ملک ایسے ہیں جہاں اربوں بچے کم یا ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔ غیر معمولی معاشی کساد بازاری کے بعد حکومتوں کے لیے مشکل کام ہوجائے گا کہ وہ بچوں کی صحت، تعلیم اور خوراک کی فراہمی کے منصوبوں کو جاری رکھ سکیں۔ معاشی حالات اگر بدترین رخ اختیار کرلیتے ہیں تو دنیا کے غریب بچے جو غربت اور کم غذائیت کے باعث ہلاک ہورہے ہیں ان کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔ دنیا کے کروڑوں بچوں کو اسکولوں میں ایک وقت کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ تمام اسکول کئی مہینوں سے بند ہیں اور یہ بچے ایک وقت کی معقول غذاسے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
ایک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے کروڑوں بچے جب اسکولوں میں دوبارہ جانا شروع کریں گے تو ان درس گاہوں میں ہمیشہ کی طرح نہ پانی اور نہ ہاتھ دھونے کے لیے صابن موجود ہوگا۔ اس ماحول پڑھنے والے بچوں کی تعداد تقریباً 90 کروڑ ہے۔ ان بچوں کو گندے اور انتہائی آلودہ ماحول میں پڑھنے پر مجبور ہونا پڑے گا جس سے وہ باآسانی کورونا او ر دیگر بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔
کورونا صرف بیماری نہیں بلکہ معاشی تباہی کا نام ہے۔ دنیا کی غریب آبادی کے معصوم بچے پہلے ہی بڑی تعداد میں موت کا شکار ہورہے ہیں غریب ملکوں میں پانچ سال کی عمر سے کم، 25000 بچے روزانہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہلاکتوں کی یہ شرح امیر اور صنعت یافتہ ملکوں کے مقابلے میں 29 گنا زیادہ ہے، اس وبا کے بعد غربت سے ہلاک ہونے والے لوگوں اور بچوں کی تعداد کورونا کے باعث مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
کورونا وبا کے دوران انسانوں کے بجائے کاروبار بچانے کی حکمت عملی سے نہ لوگ بچ سکے نہ کاروبار۔ حکومتیں خبردار ہوجائیں کہ کورونا کے بعد بھی ان کا رویہ نہ بدلا اور لوگوں کو معاشی بدحالی کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تو جو تباہی آئے گی اس سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔