اگست کے مہینے میں (پہلاحصہ)
"دس ہزار برس قبل مسیح" جیسی کوئی فلم دیکھیے۔ ہزاروں برس پرانی برف ہے اور اس پر چلنے والوں کے نقش قدم کتنے گہرے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اردو ادب کے صفحوں پر ان کی تخلیقات کے نشانات دور تک دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے لکھنا شروع کیا، پہلا مجموعہ "ستاروں سے آگے" سامنے آیا تو ان کی عمر بمشکل 20 برس تھی۔
بیشتر پڑھنے والوں نے اس کا بس اتنا نوٹس لیا کہ رومانوی مزاج ہے، لکھنے کا شوق ہے۔ کانونٹ میں پڑھا ہے، اسی لیے وہاں کی فضا کا نقشہ کھینچتی ہیں۔ یہ بھلا کیا آگے بڑھیں گی۔ کوئی اور ہوتا تو دل چھوڑ اور قلم توڑ کر ایک طرف کو بیٹھ جاتا لیکن قرۃ العین بندی نے کسی کی ایک نہ سنی اور دائیں بائیں دیکھے بغیر لکھتی چلی گئیں۔ نقاد ان کے بارے میں کچھ بھی کہتے رہے۔ ان کے پڑھنے والے ان کی تحریروں پر فریفتہ رہے۔ یہ ان کے پڑھنے والے تھے جنھوں نے "آگ کا دریا" سے لے کر "گردش رنگ چمن" اور "چاندنی بیگم" ایسے ناول پڑھے۔ افسانوں کا تو کئی شمار نہیں۔
وہ اردو ادب کی کریز پر تادیر رہیں اور 80 برس سے زیادہ گزار کر وقت کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئیں۔ صاحبو وقت سے بڑا کھلاڑی کون ہے اور کون اس کے ہاتھوں کلین بولڈ نہیں ہوا۔
وہ 21 اگست 2007 کو اس جہان سے گزریں۔ ان کے جانے کے بعد ان کے حاسدین کچھ بھی کہیں لیکن انھوں نے جو کام اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ اشوک کی لاٹھ کی طرح سر اٹھائے کھڑا ہے اور ابھی بہت دنوں تک شاید ان کا کوئی ثانی نہ ہو۔ وہ ابھی دس برس کی تھیں کہ اردو ادب کے باوا آدم پریم چند نے اپنے پران تیاگے۔ وہ سادگی سے پُرپیچ باتیں لکھنے والے ایک ادیب تھے۔
انھوں نے انسانی نفس کی حالتوں کو لکھا اور خوب لکھا۔ قرۃ العین ان کے بعد آئیں۔ کرکٹ کی زبان میں کہیے تو یہ کہا جائے گا کہ ان کی ابتدائی تحریروں کو ہم "وارم اپ" کرنے کا انداز کہہ سکتے ہیں، ان افسانوں کے بعد انھوں نے ’میرے بھی صنم خانے، سفینہ غم دل، جیسے ناول لکھے۔ ذاتی اندوہ اور دل زدگی کا احوال۔ اس کے بعد "آگ کا دریا" سامنے آیا جس نے ان کے ناقدوں کو حیران پریشان کردیا اور ان کے پڑھنے والے ان پر فدا پروانہ ہوگئے۔
پاکستان آنے والے چند لوگوں نے دوبارہ ہندوستان کا رخ کیا۔ ان میں ساحرلدھیانوی سامنے کا نام ہیں۔ استاد بڑے غلام علی خان، جدی پشتی "قصوری" تھے لیکن انھوں نے یہاں فنون لطیفہ کے ساتھ جو سلوک ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد وہ اپنی جنم بھومی کو سات سلام کرکے ہندوستان نکل گئے۔
قرۃ العین حیدر کو بھی اندازہ ہوا کہ پاکستان کی فضا آزادانہ تحریر وتخلیق کے لیے سازگار نہ ہوگی۔ انھوں نے بھی رخت سفر باندھا اور لندن سے ہوتی ہوئی بمبئی جا پہنچیں، یہ ان کی اور اردوادب کی خوش بختی تھی۔ اپنی اسی خوش بختی کی چھتر چھایا میں انھوں نے اعلیٰ افسانے، ناولٹ، ناول اور خود نوشت لکھی۔ اردو میں کرشن چندکے رپورتاژ"پودے" کے بعد قرۃ العین حیدر نے ایک دو نہیں کئی رپورتاژ لکھے۔ اس وقت مجھے ان کا وہ رپورتاژ یاد آرہا ہے۔ جو "ستمبر کا چاند" کے عنوان سے شایع ہوا اور جس میں ان دو شہروں کا بہ طور خاص تذکرہ ہے۔ جنھیں امریکا نے اپنی سفاکی اور خوں آشامی کا نشانہ بنایا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی آج تک دنیا کے لیے عبرت کا نشان ہیں۔
اب سے 60 برس پہلے جاپان کے شہر ٹوکیو میں ادیبوں اور دانشوروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 28 ملکوں کے 200 سے زیادہ ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی تھی اور جسے قرۃالعین حیدر نے ادیبوں کا ایک زبردست اجتماع قرار دیا تھا۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ ان دنوں وہ پاکستان کی شہری تھیں اور صرف 4 برس بعد ان کی شہریت بدلنے والی تھی۔ انھوں نے اس کانفرنس میں بہ طور ایک ’پاکستانی مندوب، شرکت کی اور اس کا ’رپور تاژ، لکھا۔ کرشن چندر کے "پودے" کے بعد اردو کا شاید سب سے قابل ذکر رپورتاژ۔
یہPEN انٹرنیشنل کی وہ بین الاقوامی کانفرنس تھی جو سرد جنگ کے عہد عروج میں منعقد ہوئی۔ یہ بائیں بازو کے ادیبوں اور دانشوروں کی روکلا امن کانفرنس، نیویارک اور پیرس امن کانگریس کا جواب تھی۔ سوویت ٹینک بوڈاپسٹ کی سڑکوں کو روند چکے تھے، اس فتح کے خلاف آواز بلند کرنے والے نوجوانوں کے خون کا چھڑکاؤ ہوچکا تھا۔ ایسے میں آزاد دنیا کی طرف سے یہ کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی۔
ایک امریکن ادیب نے قریب آکر کھانے پر اظہار خیال شروع کیا "میں آپ لوگوں کی باتوں میں مخل تو نہیں ہوا؟ " اس نے کہا۔"نہیں تو۔" مسٹر رائے نے جواب دیا۔"ہم لوگ اپنے خاندانی جھگڑے کی باتیں کررہے تھے۔ جب ایک خاندان میں پھوٹ پڑجائے اور دو سگے بھائی اپنے آبائی مکان کا بٹوارا کرکے علیحدہ ہوجائیں تو ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان میں دوبارہ اتفاق پیدا ہوسکے۔"
"صدیوں تک یہ دشمنی چلتی رہتی ہے۔ نفرت اور تلخی بڑھتی جاتی ہے، گھٹتی کبھی نہیں۔" قرۃالعین حیدر کہتی ہیں اور اس مچھلی کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں، جس میں بہت سے کانٹے ہیں اور جنھیں وہ نگل لیتی ہیں۔
ٹوکیو کے انڈسٹریل کلب لنچ کے دوران ایک جاپانی ادیب پاکستانی مہمان خصوصی سے کہتا ہے :وہ لکھتی ہیں : "لنچ کے دوران میری میز پر ایک صاحب آن بیٹھے۔ ایک جاپانی نے جو برابر کی کرسی پر بیٹھا تھا، ان سے کہا "میں اس قدر خوش قسمت ہوں کہ ٹیگور سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکا ہوں، عرصہ ہوا جب وہ جاپان آئے تھے۔"
پاکستانی مہمان نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جاپانی نے گھبرا کر ان کو دیکھا اور پھر چُپکا ہورہا۔ شاید اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط بات کہہ دی ہے۔ اس کے برابر میں دوسری طرف مشرقی پاکستان کے ایک ادیب بیٹھے تھے اور شاید اب تک وہ دونوں ٹیگور ہی کی باتیں کررہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے ادیب بھی ہر بنگالی کی مانند خواہ وہ پاکستانی ہو یا ہندوستانی، ٹیگور کے پرستار تھے، مغربی پاکستان کے مہمان کی معنی خیز خاموشی پر وہ بھی چپ ہوگئے۔ چند لمحوں بعد مقابل میں بیٹھے ہوئے ایک یورپین نے دوسرا موضوع چھیڑ کر موقع کو سنبھالا۔
کانفرنس میں اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے وہ مغربی پاکستان کے ان مہمان سے آہستہ سے پوچھتی ہیں "ٹیگور کے مسئلے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ "
"جی…؟ ""میرا مطلب یہ ہے کہ ٹیگور بنگلہ کا عظیم ترین شاعر ہے اور بنگلہ پاکستان کی ایک سرکاری زبان ہے تو اس حساب سے ٹیگور بھی پاکستانی شاعر ہوا۔""میری سمجھ میں نہیں آیا آپ کیا کہہ رہی ہیں۔"
"دیکھئے میں عرض کروں " میں نے گلا صاف کیا۔"آپ نذرالاسلام کو بڑا زبردست پاکستانی شاعر مانتے ہیں، جس غریب کو پاکستان کے وجود کی بھی خبر نہیں۔ ٹیگور کو آپ نہیں مانتے جب کہ آپ کو مشرقی پاکستان کے ہر گھر میں قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور کی تصویر بھی دیواروں پر آویزاں نظر آتی ہے۔
مطلب یہ کہ اس بے چارے جاپانی نے مارے اخلاق کے ٹیگور کے متعلق آپ سے بات کی تو آپ خاموش ہوگئے اور وہ بے حد کھسیا نا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ زمین کی تقسیم کے بعد ٹیگور اور اقبال جیسی عظیم بین الاقوامی ہستیوں کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔" قرۃ العین حیدر کی لکھی ہوئی یہ سطریں جون 1958ء کے ’نقوش، میں شایع ہوئیں۔ زبان کا نازک مسئلہ پاکستان کے دونوں حصوں میں تلخی کے بیج بو چکا تھا اور اس کی لہلہاتی ہوئی فصل کے نتیجے میں صرف 15برس بعد لاکھوں سروں کی کھیتیاں کٹنے والی تھیں لیکن پاکستانی افسران ان نزاکتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
(جاری ہے)