Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Apni Kahani Yaad Aayi

Apni Kahani Yaad Aayi

اپنی کہانی یاد آئی

اگست جولین اور گیریگوری کیلنڈر کے اعتبار سے سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اس کا نام 8 قبل مسیح میں رومن شہنشاہ آگسٹس سیرز کے نام پر رکھا گیا اور پھر 1852 میں پوپ گیریگوری نے بھی اسے سند عطا کی۔

یہ مہینہ ذاتی طور پر میرے لیے نہایت خوش بخت ہے، لیکن اس نے ہمارے ایشیا پر بہت ستم ڈھائے۔ اس مہینے میں جاپان کے دوہنستے بستے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکا نے دنیا کے پہلے ایٹم بم گرائے جنھوں نے لاکھوں انسانوں کو نہایت اذیت ناک موت سے دوچار کیا اور اس کے بعد آج تک ان مہلک بموں کے اثرات زمین اور فضا سے نابود نہ کیے جاسکے ہیں۔

یہ بھی اتفاق ہے کہ 8 اگست 1915کو راولپنڈی میں وہ شخص پیدا ہوا جس کا نام بھیشم ساہنی تھا، جو بیسویں صدی کے ہندی ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ بھیشم کو شروع ہی سے انسانوں سے محبت تھی۔ اس نے کہانیاں، ناول اور ڈرامے لکھے جنھوں نے انھیں شہرت دی۔ ایسی شہرت کہ وہ صرف ہندی پڑھنے والوں میں ہی نہیں، اردو اور ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی صف اول کے لکھنے والے مانے گئے۔

انھیں شیرومتی، رائٹرزر ایوارڈ، ان کے ناول "تمس" اور دوسرے کئی ناولوں اور ڈراموں پرمختلف ایوارڈ دیے گئے جن میں سرسید نیشنل ایوارڈ بھی شامل ہے، وہ ادب کے حوالے سے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازے گئے، وہ اب جاچکے ہیں، ان کے اعزاز و اکرام میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

ہمیں انعام ندیم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے بھیشم ساہنی کی کہانیوں کا ترجمہ کیا اور "عکس پبلی کیشن" لاہورنے اسے "امرتسر آگیا ہے" کے عنوان سے شایع کیا۔ انعام ندیم نے مارچ 1947 کے وہ دن لکھے ہیں جب راولپنڈی میں خونی فساد ہورہے تھے۔ انعام ندیم لکھتے ہیں: "ہندو مسلم فسادات کا دورہے۔

گلی، محلوں میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ افراتفری کا عالم ہے ایسے میں ایک نوجوان رضا کار اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گلی گلی جاکر لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس دوران اسے ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک بڑا سا کنواں ہے اور عورتیں اپنی آبرو بچانے کے لیے بھاگ بھاگ کر اس کنویں میں کود رہی ہیں، جن کی گود میں بچے ہیں وہ بچوں سمیت چھلانگ لگارہی ہیں، جن کے ساتھ جوان بہو، بیٹیاں ہیں وہ جبراً انھیں کھینچ کر اس کنویں میں دھکیل رہی ہیں، کوئی انھیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کررہا۔

ہر جانب ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ جب ذرا امن قائم ہوتا ہے تو وہ نوجوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کنویں کے پاس جاتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اگر کوئی زندہ بچا ہو تواس کی مدد کی جاسکے، لیکن جب وہ کنویں میں جھانکتا ہے تو دیکھتا ہے کہ مردہ عورتوں کی پھولی ہوئی لاشیں اندر تیر رہی ہیں۔ اس واقعے کو، اس خوفناک منظر کو وہ نوجوان عمر بھر نہیں بھول سکا۔ کنویں کا وہ اندھیرا، وہ تاریکی زندگی بھر اسے گھورتی رہی، اس نوجوان کا نام بھیشم شاہنی تھا۔

ایک کنویں سے دیکھتی ہوئی مردہ آنکھیں بھیشم کو دیکھتی ہیں اور وہ ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ مجھے اپنا ایک افسانہ "تنہائی کے مکان میں " یاد آتا ہے۔ کہانی کی جاپانی کردار ماسومی کہتی ہیں:

"کہانیاں یا ڈرامے زندگی کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ان کے رنگ، ان میں سانس لیتا ہوا خوف اور ان کا ڈرامائی عنصر سب پھیکا نظر آتا ہے۔ زندگی کا سب سے بڑا ڈراما تو آج تک تحریر نہیں ہوا۔ وہ جیسے خود کلامی کررہی ہے۔

اس روز صبح سے ہی گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شام کو میری سالگرہ تھی اس لیے منہ اندھیرے اٹھ گئی۔ ماں نے گزشتہ رات میرے گلابی لباس پر گہرے گلابی پھول ٹانکے تھے اور اب منہ اندھیرے سے وہ کیک بنانے میں مصروف تھی۔ باپ نے دفتر جانے سے پہلے مجھے پیار کیا تھا اورمیرے گلے میں ایک زنجیر پہنا دی تھی جس میں ایک چھوٹی سے گھڑی تھی۔

بڑے بھائی، بہن اسکول چلے گئے تھے لیکن میری طبیعت ٹھیک نہ تھی اس لیے میں گھر پر تھی۔ سب کے جانے کے بعد گھرپر گہرا سناٹا چھا گیا۔ میں آدھا دھڑ کھڑی سے باہر نکالے ہوئے پچھواڑے کے باغ میں جھانک رہی تھی کہ اچانک بوندا باندی شروع ہوگئی۔ میں آواز دے کر ماں کو یہ بات بتائی تو وہ الگنی پر پڑے ہوئے کپڑے اتارنے کے لیے چلی گئی۔

میں نے ماں کو جلدی جلدی کپڑے سمیٹتے ہوئے دیکھا، پھر میں نے سر اُٹھا کر بادلوں کو دیکھنا چاہا۔ وہاں بادلوں کے ساتھ ساتھ تین بڑے غبارے تیر رہے تھے۔ اچانک سارا آسمان گلابی روشنی سے بھر گیا اور روشنی رنگ بدلنے لگی۔ نیلا، گلابی، سرخ، بھورا، زرد اور کاسنی۔ اُسی لمحے میں نے ماں کی چیخ سنی۔ میں نے دیکھا اُس کے ہاتھ میں سمٹے ہوئے کپڑے جانے کہاں چلے گئے تھے اور وہ خود سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح جل رہی تھی۔ میں نے چیخنا چاہا لیکن میرے اندر آواز نہیں رہی تھی۔ میری کہنیوں کے نیچے سے کھڑکی کی چوکھٹ کہیں چلی گئی تھی اور میں اڑرہی تھی۔ پھر میں سبزے پر ماں کے قریب جاگری۔ آگ میرے بدن کے اندر سے گزر رہی تھی۔

ماسومی اپنی ماں کے اور اپنے بارے میں اس لاتعلقی سے باتیں کررہی ہے جیسے کسی اور پر گزرے ہوئے واقعات دہرا رہی ہو۔ سچ کا سورج ہم پر طلوع ہورہا ہے اور ہماری آنکوں کی بینائی چھین رہا ہے۔ میرے ہاتھ کا پیالہ کانپنے لگتا ہے۔ میں اسے غور سے دیکھتی ہوں۔ اس میں خون چھلک رہا ہے۔ میرے ہاتھوں کی لرزش بڑھ جاتی ہے اور اس میں سے چند قطرے قالین پر گر جاتے ہیں۔

ایک گہری سانس لینے کے بعد ماسومی کہتی ہے۔ میری آنکھ کھلی تو میں سیاہ سبزے پر تھی۔ میرے گھر کی دیواریں نہیں تھیں، چھت نہیں تھی، ماں نہیں تھی۔ آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ بس آگ تھی، دھواں تھا۔ میں نے اٹھ کر چلنا چاہا تو میرے پاؤں جلے ہوئے تھے اور آنکھیں سوج کر آدھی بند ہوگئی تھیں۔ گلی جانے کہاں چلی گئی تھی، راستے نہیں رہے تھے۔ لوگ بے نور آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اور جھلسے ہوئے پیروں سے چلتے ہوئے سرجھکائے کسی ایک طرف جارہے تھے۔ شاید وہی راستہ تھا۔ ان لوگوں کے بدن پر کپڑے نہیں چیتھڑے تھے۔

لاوے کی طرح ابلتا ہوا گوشت، چہروں، ہاتھوں اور پیروں سے لٹکی ہوئی کھال۔ میرے بدن پر بھی کچھ نہ تھا۔ بس یہ گھڑی تھی جو میری گردن سے لپٹی ہوئی تھی۔ میں اپنے باپ کے ہاتھ کی طرح، اپنی ماں کی انگلی کی طرح اسے مٹھی میں دبائے اندھوں کی طرح چلتی رہی۔ میں پیاس سے مر رہی تھی، سب ہی پیاس سے مررہے تھے۔ میں پانی کے لیے رو رہی تھی۔ سب ہی پانی کے لیے رو رہے تھے اور اندھوں کی طرح بغیر دیکھے آگے بڑھ رہے تھے۔

میرے شہرمیں سات دریا بہتے تھے لیکن ہمارے اندر ایسی پیاس بھڑکتی تھی کہ ان کا پانی بھی اسے بجھانے کے لیے کافی نہ تھا۔ تمہارے لیے ٹیمز میں روشنیاں اور خوشیاں تیرتی ہیں اور میں نے پانی کے لیے ترستے ہوئے اور تپش سے جھلستے ہوئے لوگوں کی لاشوں سے بھرے ہوئے دریا دیکھے ہیں، ماسومی کی آواز جھرجھرارہی ہے اور آنکھیں خشک ہیں اس کے آنسو بن بری کی اور میری آنکھوں سے بہہ رہے ہیں۔

انسان، انسان کو ہلاک کرتا ہے، اس کے لیے آنسو بہاتا ہے۔ یوں بھی یہ اگست کا مہینہ بہت ظالم ہے۔ اس میں جاپانی لاکھوں کی تعداد میں قتل کیے گئے، اس میں بٹوارے کے نام پر لاکھوں مسلمان، ہندو اور سکھ قتل کیے گئے، برباد کیے گئے، بے گھر، دربہ در ہوئے۔ لاکھوں آج بھی سوچتے ہیں کہ اس اگست کے مہینے نے انھیں کیا دیا۔

شاید ان میں سے کسی کو ساحر لدھیانوی کی طویل نظم "پرچھائیاں " یاد آتی ہو، یا شاید ماسومی کی نظم یاد آتی ہو۔

"ماں! میں بن شعلوں کی آگ میں جلی

میں نے ایک ایسے زخم کا درَد سہا

جس سے خون نہیں بہتا

ماں! میرا کھانا اور پینا

ذائقوں سے نا آشنا تھا

اور میرِ عیاں شب بسری میری

لذتوں سے ہمکنار نہ تھی

اور ماں !میری زندگی

زندہ تو تھی لیکن مکمل موت تھی۔"

یہ وہ مہینہ ہے جس میں کسی کے لیے امرتسر نہیں آیا، دلی نہیں آیا اور لاہور نہیں آیا اور آج بھی وہ انتظار میں ہیں۔ یہ انتظاری آنکھیں کب تک منتظر رہیں گی۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Sharmeela Multani Billa

By Rauf Klasra