زیارت کعبہ
مکہ مدینہ میں ان دنوں بھی رمضان جیسا ہجوم ہے۔ دنیا بھر سے زائرین چلے آرہے ہیں۔ بیت اللہ شریف اپنی آن شان کے ساتھ برکات و کیفیات نچھاور فرما رہا ہے۔ کعبتہ اللہ شریف دنیا کی سب سے قدیم عمارت ہے۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو فرشتوں نے تعمیر کیا۔ یہ عرش معلّٰی کے نیچے واقع ہے۔ کعبتہ اللہ کو بیت الحرام، مسجد الحرام اور بیت العتیق بھی کہا جاتا ہے۔
کعبتہ اللہ کے چار رکن ہیں، رکن حجر اسود، رکن عراقی، رکن شامی اور رکن یمانی۔ اس وقت کعبتہ اللہ کو دنیا کی سب سے قدیم عمارت کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی تخلیق سے پہلے عرش کے نیچے بیت المعمور پیڈم فرمایا، جس کا ستر ہزار فرشتے ہمیشہ طواف کرتے رہتے ہیں اور جو ایک مرتبہ طواف کرتے ہیں، انھیں دوبارہ طواف کا موقع نہیں ملتا۔ اسی بیت المعمور کے نیچے اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لئے کعبتہ اللہ کی تعمیر کا فرشتوں کو حکم دیا۔
جب حضرت آدمؑ کو جنت سے زمین پر بھیجا گیا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "آپ مکہ مکرمہ جائیں اور وہاں میرا گھر تعمیر کرکے اس کا طواف کریں اور اس کے اطراف نماز پڑھیں، جس طرح میرے فرشتے عرش کا طواف کرتے اور اس کے پاس نماز پڑھتے ہیں"۔ چنانچہ حضرت آدمؑ حضرت جبرئیلؑ کی رہنمائی میں مکہ مکرمہ پہنچے اور وہاں حضرت جبرئیلؑ نے اپنا پر مارکر کعبتہ اللہ کی بنیاد ظاہر کردی، اس طرح روئے زمین کے سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ نے روئے زمین کی سب سے پہلی عمارت کعبتہ اللہ کی تعمیر فرشتوں کی مدد سے فرمائی۔
حضرت آدمؑ نے چالیس مرتبہ کعبتہ اللہ کا حج ادا فرمایا۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے بیٹے حضرت شیثؑ نے کعبتہ اللہ کی تعمیر فرمائی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ کعبتہ اللہ شریف بھی دنیا کے نشیب و فراز سے گزرتا رہا۔ حضرت نوحؑ کے دور میں جب طوفان آیا تو آپ کی کشتی کعبتہ اللہ کے گرد گھومتی رہی، پھر اس کے بعد آپ کی کشتی نے اپنا رْخ جودی پہاڑ کی طرف موڑ دیا اور وہاں پہنچ کر ٹھہر گئی۔
طوفانِ نوح کے چار سو سال بعد حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو لے کر کعبتہ اللہ کی تعمیر فرمائی۔ حضرت ابراہیمؑ جب کعبتہ اللہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو اس وقت آپ کی عمر شریف ایک سو دس سال اور حضرت اسماعیلؑ کی عمر شریف بیس سال تھی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت سے پانچ سال قبل قبیلۂ قریش نے حسب ضرورت کعبتہ اللہ کی تعمیر کی۔ قبیلۂ قریش میں اس وقت کئی چھوٹے گروہ طاقتور سمجھے جاتے تھے۔
جب کعبتہ اللہ کی تعمیر مکمل ہونے لگی تو حجر اسود کی تنصیب کا مسئلہ پیش آیا۔ اس وقت سارے گروہوں کے درمیان ٹھن گئی کہ حجر اسود کو ہم نصب کریں گے اور یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ جنگ کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی کشمکش میں پانچ دن گزر گئے، پھر قبیلۂ قریش کے سرکردہ افراد اس مسئلہ کو سلجھانے کے لئے کعبتہ اللہ میں جمع ہوئے اور ان میں سے ابوامیہ بن مغیرہ (جو قریش کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ اور تجربہ کار فرد تھے) نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح حرم شریف میں جو شخص سب سے پہلے داخل ہوگا، اسے حَکَم بنا لیا جائے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے، تمام قبائل کے سردار اس شخص کے فیصلہ کو تسلیم کریں۔
اللہ تعالیٰ کی شان کریمی اور "وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک" کا معجزہ دیکھئے کہ سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ صحنِ کعبتہ میں تشریف لاتے ہیں۔ دیکھتے ہی لوگوں کی آوازیں گونج اْٹھیں کہ "یہ تو امین ہیں اور ہم ان کے فیصلہ سے راضی ہیں"۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا انصاف دیکھئے کہ آپ ﷺ نے ایک بڑی چادر منگوائی اور چادر کے بیچ میں سنگ اسود کو رکھا۔ پھر تمام قبائل کے سرداروں کو چادر کے چاروں کونے پکڑکر حجر اسود کو اْٹھانے کے لئے کہا اور جب لوگ سنگ اسود کو اْٹھاکر کعبتہ اللہ کی دیوار کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے سنگ اسود کو اْٹھاکر اس کے مقام پر نصب فرمادیا۔
خانہ کعبتہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔ یہ بیت اللہ کا وہ کونا ہے جو ملک یمن کی جانب واقع ہے۔ اسی لئے اس کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ کعبتہ اللہ کے تین کونوں کے چکر لگانے کے بعد جب چوتھے کونے پر پہنچیں گے، اس کا نام "رکن یمانی" ہے، رکن یمانی کو دونوں ہاتھوں سے یا صرف داہنے ہاتھ سے چھونا سنت ہے، جب کہ دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر وہاں تک پہنچنا ممکن ہو ورنہ بغیر ہاتھ لگائے ہی وہاں سے گذرجائے اور اس کی طرف ہاتھ کا اشارہ بھی نہ کرے، نبی ﷺ رکن یمانی کا استلام کیا کرتے تھے۔ نہ تکبیر کہتے تھے نہ بوسہ لیتے تھے۔ فقط حجر اسود کو بوسہ دینا سنت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓما روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ ہر روز ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتا ہے، جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کیلئے، اور چالیس حرم میں اعتکاف کرنے والوں کیلئے اور بیس رحمتیں کعبتہ اللہ کو دیکھنے والوں کو ملتی ہیں"۔۔ مکہ مکرمہ میں عظیم عبادت طواف اور زیارت بیت اللہ شریف ہے۔ جس قدر ہو سکے بیت اللہ شریف کی زیارت اور طواف سے فیضیاب ہوا جائے۔