وزیراعظم کو درپیش چینلجز
غالباً 2002ء کی بات ہے امریکہ سے عمرہ کے لئے گئی ہوئی تھی۔ مرحوم مجید نظامی صاحب سے مکہ معظمہ سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے میاں صاحبان کا انٹرویو کرنے کو کہا۔ یاد رہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا دور تھا اور شریف خاندان جبری ملک بدر کر دئیے گئے تھے۔ میاں نواز شریف پر انٹرویو دینے پر بھی پابندی عائد تھی۔
جلا وطنی کے بعد پہلا انٹرویو فقط طیبہ ضیا کو نوائے وقت کے لئے دیا جو پرویز مشرف نے بھی پڑھا۔ شریف فیملی سے ملاقات کے لئے مجید نظامی صاحب کا حکم بجا لاتے ہوئے دوبارہ مدینہ منورہ پہنچی اور میاں نواز شریف فیملی سے مدینہ منورہ کے ایک معروف ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ نوائے وقت کے حوالہ سے 2001ء میں میاں نواز شریف، شہباز شریف اور بیگم کلثوم سے ہماری وہ پہلی تفصیلی ملاقات تھی۔
دور جلا وطنی میں اس خاندان کی حمایت و ہمدردی میں اتنے کالم لکھے کہ میری پیشانی پر مسلم لیگ نواز لکھ دیا گیا حالانکہ میرا تعلق اپنے والد کے مسلم لیگی نظریہ سے ہے اور انشا اللہ رہے گا۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریہ پاکستان کی محبت میں نوائے وقت بھی جائن کیا اور نظریاتی سوچ کی کھل کر تشہیر کرتی ہوں۔ مسلم لیگ نون قاف وغیرہ کو حروف تہجی کی مسلم لیگیں کہتی ہوں۔ امریکہ رہتے ہوئے بھی عوام کی تکالیف کی ترجمانی زبانی اور قلمی جاری رکھی جبکہ اب پاکستان شفٹ ہو چکی ہوں اور رب نے مومنہ چیمہ فائونڈیشن کے وسیلہ سے گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے باسیوں کی خدمت کا فریضہ بھی سونپ دیا ہے۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور بیگم کلثوم نواز سے مدینہ منورہ میں ملاقات اور ان کی جلا وطنی کے بعد پہلے تفصیلی انٹرویو نے مجھے ان لوگوں کو قریب سے جاننے کا موقع دیا۔ بیگم کلثوم نواز سے قلبی وابستگی رہی مگر سیاسی اختلافات کا جب موقع ملا شریف خاندان کے بھی خلاف کھل کر تنقید کی۔ پردیس میں رہنے کی وجہ سے میں نے شریف خاندان کی جلا وطنی کو جذباتی طور پر محسوس کیا۔
مدینہ منورہ کی ملاقات میں غیر سیاسی تعلق بن گیا۔ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد میاں شہباز شریف کو مہلک کینسر کا مرض لاحق ہو گیا اور علاج کے لئے نیو یارک آنا پڑا۔ ہمارا ان سے رابطہ ہوا اور مدینہ کی ملاقات کے حوالہ سے میاں شہباز شریف کے دوران بیماری ان سے اور ان کی فیملی سے رابطے میں رہے۔ یاد رہے کہ وہ دور میاں صاحبان کے زوال کا دور تھا اور جب اقتدار میں آئے میں نے مثبت تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ گو کہ تعلق مدینہ منورہ سے بنا تھا اور مدینہ والے کے صدقے حکمرانوں کی خامیاں بھی کھلے دل سے لکھتی ہوں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تنقیدی کالموں کو ہمیشہ برداشت کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی عزت احترام کرتی تھیں۔ مگر موجودہ ماحول میں سوشل میڈیا نے گالم گلوچ کا جو کلچرپروان چڑھایا ہے سیاست پر لکھنا غلاظت میں ہاتھ ڈبونا ہے۔ نیو یارک میں میاں شہباز شریف کاکامیاب آپریشن ہواتھا۔ مدینہ منورہ سے بنے اس غیر سیاسی تعلق کے سبب میاں شہباز شریف کی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کو جاننے کا قریب سے موقع ملا۔
یہ شخص کام کرنے کاجنون رکھتا ہے۔ بیس برس پہلے آپریشن کے لئے جب انہیں ڈاکٹر نے بیہوش کیا تو امریکن نرس نے بتایا مریض بیہوشی میں بھی انگریزی میں پاکستان کے لوگوں سے مخاطب تھا۔ ووٹ بینک بھائی صاحب کا ہے مگر ہم نے بیس برس پہلے کہا تھا کہ ایک روز آپ وزیراعظم ضرور بنیں گے مگر ہمیں یہ علم نہ تھا کہ اس قدر مشکل حالات میں بنیں گے۔ اب جب یہ بھاری ذمہ داری کا طوق گلے میں پہن ہی لیا ہے تو رب انہیں سر خرو کرے۔
ملک کو معاشی بدحالی کی دلدل سے نکالے۔ ملک کو درپیش چیلنجز وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین امتحان ثابت ہو رہے ہیں۔ رب انہیں اس امتحان سے باعزت طور پر بری کرے۔