Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Tayeba Zia
  3. Mazhab Ke Naam Par

Mazhab Ke Naam Par

مذہب کے نام پر

پاکستان مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا شاید یہی وجہ کہ اس مملکت خدا داد میں عوام مذہب کے نام پر با آسانی بے وقوف بن جاتے ہیں۔ سیاست سے مذہبی تبلیغ تک الا ما شا اللہ مفاد پرست طبقہ مذہب کی آڑ میں خوب اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔ ایک شخص نے شادی کر لی، اس کی بیوی نے کہا کہ میں عالمہ ہوں اس وجہ سے ہم شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ وہ شخص بہت خوش ہوا کہ اس کی زندگی میں آسانیاں ہونے جا رہی ہیں۔ کچھ دنوں بعد بیوی نے کہا، بہو پر ساس سسر کی خدمت واجب نہیں اور شریعت کے مطابق شوہر کو بیوی کے لئے علیحدہ گھر کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ وہ شخص پریشان ہو گیا کہ علیحدہ گھر کس طرح لے دے۔

بوڑھے والدین کو اکیلے کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس شخص نے مفتی صاحب سے مدد طلب کی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ تمہاری بیوی کا مطالبہ بظاہر شرعی ہے لیکن شریعت میں ظلم، بے رحمی، بے حسی، احسان فراموشی، کی گنجائش نہیں لیکن یہ باتیں تمہاری بیوی قبول نہیں کرے گی کیوں کہ اس کی نیت میں فتور ہے۔ وہ شریعت کی آڑ میں الگ گھر اور والدین کی خدمت سے جان چھڑانا چاہتی ہے لہذا تمہیں بھی شرعی ٹوٹکہ استعمال کرنا ہو گا۔ گھر جائو اور بیوی سے کہو کہ شریعت میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہے لہذا میں دوسری شادی کرنے جا رہا ہوں ایک ایسی خاتون سے جو میرے والدین کے ساتھ رہے اور والدین کی دیکھ بھال میں میری مدد کرے۔ بیوی کو یہ سننا تھا کہ سٹپٹا گئی اورفوراً بولیدفع کرو الگ گھر کو، میں ادھر ہی تمہارے والدین کیساتھ رہوں گی، ان کی خدمت کروں گی کیوں کہ والدین کیساتھ حسن سلوک سے پیش آنابھی اللہ کا حکم ہے۔۔۔ !

سوشل میڈیا کے توسط سے دین کا سلسلہ جس قدر آسان ہو تا جا رہاہے، مذہب پر عمل اسی قدر مشکل ہوتا جا رہاہے۔ تبلیغ بظاہر نیک کام ہے لیکن اس کی آڑ میں مسلم معاشروں کو کنفیوز اور گمراہ کیا جا رہاہے۔ پوری دنیا میں مسلم مبلغین ایسے ایسے واعظ فرما رہے ہیں کہ نہ ان کا انسان کی نفسیات سے تعلق ہے اور نہ دین کی معرفت اور حقیقی مفہو م کو دخل رہاہے۔ دینی کورس یا ڈپلومہ لینے والی خواتین نے گھر گھر تبلیغی مراکز کھول رکھے ہیں۔ رٹے رٹائے سبق یاد کرکے آگے پہنچانے کو ثواب دارین سمجھا جا تاہے۔ لبرل طبقہ ماد رپدر آزادی کی لڑائی لڑ رہاہے اور نام نہاد مذہبی گھرانوں کی خواتین شریعت میں راستے تلاش کررہی ہیں۔ ساس سسر سے آزادی، باورچی خانے سے آزادی، شوہر کے کاموں سے آزادی، خرچ کرنے کی آزادی، جاب کی آزادی، گھر سے فرار کی آزادی۔ انسان بنیادی طور پر آزادی کا خواہشمند ہے لیکن آزاد ی کیلئے مذہب کی آڑ تلاش کرکے خواہش نفس کی تکمیل ٹھیک نہیں۔

بہو یا بیوی کی تلاش ہو تو پہلی بات ہی یہ کہی جاتی ہے کہ "نیک سیرت " بہو چاہیئے۔ لیکن نیک سیرت کی تشریح اس وقت معلوم ہوتی ہے جب لڑکی کا رشتہ دیکھنے ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ لڑکے کی ماں بہنوں نے حجاب اور چادریں لے رکھی ہیں۔ لڑکے کی بھی داڑھی ہے۔ باپ بھی ٹوپی پہنے باریش دیندار دکھائی دیتا ہے۔ اب نیک سیرت کا "ایکسرے" ہونے جا رہاہے۔ نیک سیرت کے ساتھ گورا رنگ، دراز قد، دبلا بدن، باریک نقوش، اعلیٰ ڈگری، نام والا باپ، ہم برادری، چھوٹی فیملی، مہنگے علاقے میں بنگلہ وغیرہ وغیرہ۔ اگر تمام شرائط مکمل ہیں تو سمجھولڑکی "نیک سیرت "ہے ورنہ "استخارہ" حق میں نہیں۔ داماد کی تلاش میں بھی "خاندانی، نیک " شرط ہے۔ لڑکا پانچ وقت کا نمازی ہے، مسجد بھی جاتا ہے، نجی ادارے میں ملازم ہے، نیک شریف خاندانی ہے۔ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن سرکاری ملازمت ہو تو اچھا تھا، لڑکے کی بہنیں ابھی بیاہنے والی ہیں، والد کوئی خاص عہدے پر نہیں۔ گھر بھی تین کمروں کا ہے وغیرہ۔ یہ ہیں " نیک شریف داماد" سے نتھی شرائط۔

مذہب کو بطور "نظریہ ضرورت" استعمال کرنے والے رشوت بھی سلیقے سے لیتے ہیں اور جھوٹ بھی "حکمت"سے بولتے ہیں۔ تبلیغ جتنی پھیل رہی ہے برائی بھی اسی حساب سے پھیل رہی ہے کیوں کہ سیاستدان ہی نہیں وعظ کرنیوالے بھی مذہب کو بطور "نظریہ ضرورت" استعمال کر رہے ہیں۔ انکے بیان بے اثر ہیں۔ ساس سسر کی بے عزتی، بزرگوں سے چرب زبانی، مہمانوں کیساتھ بد سلوکی، شوہر کی کمائی کا بلا اجازت استعمال، ملازموں کیساتھ ناروا سلوک، شوہر کے خاندان اور اپنے خاندان کیساتھ رویہ میں تضاد، اولاد کی تربیت میں ڈنڈی، غرض روز مرہ کی زندگی میں سینکڑوں غیر اسلامی و غیر شرعی حرکتیں اور باتیں ایسی کرتی ہے جس میں مذہب کو قطعاً عمل دخل نہیں۔ نام نہاد مسلمان مردو خواتین نے جہاں اپنی مرضی کی بات منوانی ہو وہاں شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔ اولاد مرضی سے شادی کرنا چاہے تو وہاں بھی مذہب کو بطور ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا ہے۔

والدین کے حقوق کا بھاشن دیا جاتا ہے۔ جہاں من مرضی کرنی ہو مذہب کی آڑ لے لی جاتی ہے ورنہ رواداری، محبت، بھائی چارہ، درد مندی، در گزر، احساس، خدمت، احسان، مروت، پردہ پوشی، ایثار، قربانی، الغرض کہیں مذہب کی پیروی دکھائی نہیں دیتی۔ بس مذہب کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ جوانی عیش و عشرت میں گزار دی اور ساٹھ ستر کو پہنچے تو لگے مذہب کا بھاشن دینے۔ نوجوان نسل بھی کہہ دیتی ہے کہ ہم بھی آپ کی طرح بڑھاپے میں تسبییہ مصلہ تھام لیں گے۔ رول ماڈل وہ ہوتا ہے جو " در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری " پر عمل پیرا رہا ہو نہ کہ جوانی بے دین گزاری اور بڑھاپے میں دیندار بن کر بھاشن دینے لگ گئے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat