مسجد امبوڑک شگر بلتستان
بلتستان کے علاقے شگر میں صدیوں پرانی لکڑی سے تعمیر کی گئی مسجد امبوڑک شگر بلتستان مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی نے 1373ء میں تعمیر کروائی تھی۔ 650 سال پرانی اس مسجد کو 2005ء میں یونیسکو نے ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کافلاحی دفتر بھی مسجد امبوڑک کے پہلو میں قائم کیا گیا ہے۔
مسجد امبوڑک فن تعمیر کا شاہکار ہے کیونکہ اسکی تعمیر میں لکڑی کے سوا کوئی تعمیراتی میٹریل مثلاً لوہے کے کیل، دروازوں کے قبضے اور آہنی کنڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ کشمیری کاریگروں نے لکڑی پر اس انداز میں نقوش بنائے کہ کئی سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ مسجد اپنی اصل حالت میں ہے۔ بلتستان میں یہ مسجد اب اہم سیاحتی مقام بن چکی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس تاریخی مسجد کو دیکھنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ ایک عظیم صوفی بزرگ تھے بلکہ عرفانی شاعر ہونے کے ساتھ ایک محقق بھی تھے۔ آپ 12 رجب المرجب 714 ہجری کو پیر کے دن ہمدان میں پیدا ہوئے اور 786 ہجری میں مانسہرہ کے علاقہ پکھلی میں انتقال فرما گئے اور ختلان میں مدفون ہوئے۔ آپ ایک بادشاہ کے فرزند ہونے کے باوجود بادشاہت کو ٹھکرا کر تبلیغ اسلام کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ چنانچہ کشمیر، بلتستان سمیت خطے کے کئی علاقوں میں اسلام کا نور پھیلایا، مورخین کے مطابق اس خطے میں امیر کبیرسید علی ہمدانی ہی پہلے مبلغ اسلام ہیں جن کی تبلیغ کے نتیجے میں اہالیان کشمیر و تبت دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
امیر کبیر سید علی ہمدانی کی تشریف آوری کے بعد کشمیر کی ثقافت ہی تبدیل ہوگئی۔ سید علی ہمدانی کو شاہ ہمدان (ایران کے ہمدان کے بادشاہ) کے علاوہ امیر کبیر یعنی عظیم قائد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے عقائد، فضائل اہلبیت اور رموز تصوف کے علاوہ دیگر موضوعات پر چھوٹے چھوٹے رسائل سے لے کر انتہائی ضخیم کتابیں بھی تالیف کیں۔ ہمدان کے انتہائی معزز اور مثالی خاندان میں پیدا ہوئے اور آپ کا سلسلہ نسب امام زین العابدینؑ سے جاملتا ہے۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ ہے جو سترہویں پشت کے بعد جناب رسول خدا ﷺ سے جاملتا ہے۔
جناب امیر کبیر نے تین دفعہ پیدل بیت اللہ شریف کا حج ادا کیا اور بیس یا اکیس سال مسلسل سفر میں رہے۔ اس عرصے میں آپ نے بہت سے اولیاء اللہ سے ملاقاتیں کیں۔ امیر کبیر اپنے کم و بیش 700 مریدوں اور پیروکاروں کے ہمراہ کشمیر تشریف لائے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیسکو کے مطابق جنا ب امیر کبیر سید علی ہمدانی وہ عظیم ہستی تھے جنہوں نے کشمیر کی ثقافت کی کئی بنیادوں کو تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف اسلامی ثقافت کا درجہ دیا بلکہ خطے میں کشمیر کی اقتصادی حالت بھی انتہائی مضبوط کردی۔ وقت کے بادشاہ امیر تیمور کے مظالم سے بچنے کیلئے آپ نے کشمیر کا رخ کیا۔
کشمیر میں جناب امیر کبیر نے ایک نہایت ہی منظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ ان کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مشہور مساجد میں دریائے جہلم کے کنارے واقعہ خانقاہ معلی، درگاہ شاہ ہمدان سری نگر مسجد امبوڑک شگر بلتستان و دیگر مساجد شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں جناب امیر کبیر کے ہاتھوں تعمیر کردہ مساجد کو "مسجد حضرت امیر" مقامی زبان میں اختصار کیساتھ "حضامیر "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کشمیر میں جناب امیر کبیر نے ایک نہایت ہی منظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ بلتستان میں امیر کبیر سید علی ہمدانی کی تعمیر کردہ بہت سی خانقاہیں موجود ہیں جہاں مکتب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے لاکھوں افراد نماز پنجگانہ، نماز جمعہ، عیدین و دیگر اسلامی تہواروں پر جمع ہوتے ہیں۔ خاص کر ایام عزاداری میں انہیں خانقاہوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مجالس ہوتی ہیں۔
آپ نے پہلی بار کشمیر کا دورہ 774 ہجر ی میں کیا اس وقت کشمیر کے حکمران سلطان شہاب الدین تھے۔ اس دورے میں آپ چھ ماہ تبلیغ دین فرماتے رہے۔ دوسری مرتبہ 781 ھ میں آپ کشمیر تشریف لائے جبکہ قطب الدین والی کشمیر تھے۔ اس موقع پر آپ نے کم و بیش ایک سال کشمیر میں قیام فرمایا۔ اس دوران آپ نے کشمیر کے قریہ قریہ کا دورہ فرمایا اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ 783 ھ میں آپ نے لداخ سمیت ترکستان کا بھی سفر کیا۔
تیسری بار 785 ھ میں آپ نے کشمیر کا رخ فرمایا اس بار آپ کا ارادہ تھا کہ اب مکمل طور پر اس علاقے میں اقامت پذیر ہو جائیں تاہم خدائے ذوالجلال کو کچھ او ر ہی منظور تھا۔ چنانچہ علالت کے باعث آپ کو واپس ہمدان جانا پڑا۔ واپسی پر جب براستہ پکھلی پہنچے توشاہی مہمانوں کی طرح استقبال کیا گیا۔ یہیں آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور یہ مرض المرگ ثابت ہوئی۔ پکھلی میں پانچ دن کی شدید علالت کے بعد آپ کو786 ھ کو تاجکستان کے دارالخلافہ دوشنبہ کے نواحی شہر ختلان لایا گیا اور یہیں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔