Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Tausif Ahmad Khan
  3. Shoq Ka Safar

Shoq Ka Safar

شوق کا سفر

سلیم عالم بنیادی طور پر استاد ہیں مگر اردو نثر اور شاعری سے گہرا لگاؤ ہے۔ سلیم عالم صاحبہ کا تعلق ایک روشن خیال خاندان سے ہے، یوں انھیں طالب علمی کے دور سے ہی اپنی مرضی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی رہی ہے۔ شوق کا سفر ان کا سفرنامہ ہے۔

معروف دانشور اور اردو کے استاد پروفیسر انیس زیدی نے کتاب کی ابتداء میں ایک لطیف تسلسل کے عنوان سے لکھا کہ سلیم عالم کا تعلق تدریس سے رہا ہے اور ا ن کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے اور ان پر دنیا منکشف ہوتی رہتی ہے۔ سلیم عالم کی شوق آوارگی کا تازہ شاخسانہ "شوق کا سفر" ہے۔

پروفیسر خیال آفاق نے "صراط سلیم" کے عنوان سے لکھا ہے کہ سلیم عالم کے سفرنامے خوب ہوتے ہیں اور صاف ستھری زبان میں بولتے سنائی دیتے ہیں بلکہ بعض جگہ تو سفرنامہ کی راقم اردو کے مترادف الفاظ ہوتے ہوئے بھی انگریزی کے الفاظ بلاتکلف استعمال کرتی ہیں۔

وہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ سننے اور پڑھنے والے کی سماعت مزے لوٹتی چلی جاتی ہے۔ سیدہ رابعہ نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ سلیم عالم کو اگر صنف نازک کی ابن بطوطہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ ایک بے چین روح ہیں۔ شوق کا سفر سلیم عالم کے سفر شوق کا نچوڑ ہے۔ کتاب کے پہلے باب کا عنوان "غرناطہ ہسپانیہ سے ایک خط" ہے۔

سلیم عالم لکھتی ہیں کہ دن میں تو ہمارا رخ شہر کی طرف ہوتا تھا اور واپسی پر شام گئے ساحل کا ایک چکر اور موڈ ہوا تو دیر تک اپنی کرسیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں کہ راتوں کو تو یورپین سیاحوں کا موڈ کھانا پینا اور ڈانس وغیرہ کرنے کا ہوتا ہے اور ساحل پر سکون ہوتا ہے اور ہم جیسے متوالے ہی وہاں ہو سکتے تھے، ہاں اسپین میں اس دفعہ خوب رہے۔ قصرالحمریٰ میں وہ لکھتے ہیں کہ سنگ سرخ سے بنا یہ محل آج بھی انتہائی حسین لگتا ہے جتنا کہ پہلے کبھی رہا ہوگا۔

گویا یہ محل اور شہر مسلمان، عیسائی اور فرانسیسی گورنروں کے تسلط میں باری باری رہا۔ کمرو ں کے اندر ہر دیوار کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی نہریں آج بھی بہہ رہی ہیں اور ان میں تازہ پانی رواں دواں ہے۔ اے سی میں کیا ٹھنڈک ہوتا ہے جو یہاں ہے۔ سلیم عالم اپنے اس سفر نامہ میں لکھتی ہیں کہ قصر الحمریٰ کے مسلمان حکمرانوں کا شاہی محل تھا۔ اس پرسکون اور نفیس جگہ پر رہ کر وہ ہسپانیہ کی سرزمین پر اسلامی اقتدارکا سکہ چلا رہے تھے اور چین کی بانسری بجاتے تھے۔ امتداد زمانہ کے ہاتھوں ہسپانیہ پر عیسائیوں کا غلبہ ہوا، نتیجہ مسلمانوں کا زوال تھا۔ مصنفہ اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتی ہیں کہ ملیگا گنجان آباد ساحلی شہر ہے۔ یہاں کی خاص دیکھنے والی جگہیں قلعہ اور شہر پناہ کی دیواریں ہیں جن کا میوزیم اور شاپنگ مالز ہیں۔

دوپہر کے وقت ہسپانوی زبان میں Ciesta آرام کا وقت ہوتا ہے تو دوپہر دو بجے سے چار بجے تک دکانیں بند اور گلیاں غیر آباد ہو جاتی ہیں، یعنی کر لو جو کرنا ہے۔ سلیم عالم نے اس کتاب میں جبل الطارق جزائر کا بھی ذکر کیا ہے۔ جبل الطارق کی مسلمانوں کی تاریخ میں خصوصی اہمیت ہے۔ اس باب میں انھوں نے پہلے طارق بن زیادہ جو شمالی افریقہ کے حاکم موسیٰ بن نصیر کا بہت ہی زیرک اور عقلمند سپہ سالار تھا کے کارنامے بیان کیے ہیں۔ پھر وہ لکھتی ہیں کہ جزائر کا کل رقبہ ڈھائی مربع میل ہے۔ آبادی 20 سے 22 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

قومی زبان اسپینی ہے۔ برطانوی شہریوں کے علاوہ یہاں ہندوستانی، پاکستانی اور خاص طور پر سندھی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جبل الطارق پہلے ابیریا Iberia کا حصہ ہوتا تھا، اس نے پہلے پرتگال اور پھر اسپین سے آزادی حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اس پر قابض ہو گیا۔ بحیرہ روم سے گزرنے والے جہازوں پر یہاں سے اچھی طرح نظر رکھی جا سکتی تھی۔ جبل الطارق پر آج بھی برطانیہ کی عملداری سے لوگ شاکی نہیں دکھائی دیے کیونکہ اس کی وجہ سے برطانیہ اور یورپ جانے کے لیے ویزا اور ملازمت حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

سلیم عالم نے بنکاک کی سیاحت کا بھی خوب ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بنکاک جیسے بڑے شہر میں ذرایع حمل و نقل کا نظام بہت ترقی یافتہ ہے۔ سب وے ٹرین کے ساتھ ساتھ دریا میں تیرتی کشتیاں اور واٹربس سروس بھی کچھ لوگوں کو اپنی منزل پر پہنچانے کے لیے مفید ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بنکاک کی ایک بڑی پرکشش وجہ یہاں کی فلوٹنگ مارکیٹ (تیرتی ہوئی منڈی) بھی ہے۔ مصنفہ نے یورپ کے اہم مرکز اور ماڈرن شہر برسلز کے بارے میں لکھا ہے کہ برسلز یورپین یونین اور یورپین پارلیمنٹ کا مرکز ہے۔ یہاں 10ہزار سے زائد مختلف شعبوں کے ماہرین رہتے ہیں۔

ان کے علاوہ ترک، مراکش اور افریقہ سے آئے ہوئے لوگ ہیں مگر میونسپل کمیونٹی کی سطح پر دیکھیں تو پھر۔ فرنچ اور ڈچ کا جھگڑا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ بحیرہ روم کی بندرگاہ اور سعودی عرب کے سرحدی حدود پر ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخ گوناگوں کئی واقعات اور حملوں سے پر ہے۔ وہ لکھتی ہیں لبنان کی تہذیب بہت قدیم ہے۔

قدیم مذہبی کتابوں میں اس کا نام 75 مرتبہ لیا گیا ہے۔ یہ فونٹینا قوم کا گھر تھا جو تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے پھلی پھولی اور ایرانیوں کا بھی یہاں غلبہ رہا۔ سلیم عالم نے روس کا بھی دورہ کیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ میں حیدرآباد دکن میں نے اپنے گھر میں انڈر گراؤنڈ کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کے بانی لینن کا ذکر سنا تھا اور ترقی پسند ادیبوں کی کتابیں پڑھی تھیں۔ انھوں نے 60 کی دھائی میں شایع ہونے والی اخباری خبروں کا ذکر کیا ہے۔ ان خبروں میں کہا گیا تھا کہ ایک روسی خاتون کا انتخاب ہو چکا ہے۔

اب یہ خلاء کی سیر کریں گی۔ خلائی کشتی کے سفر کا پروگرام جوائن کرنے کے بعد ان سب کو فلائٹ لیفٹیننٹ کا رینک ملا، بعد میں انھوں نے اسپیس انجنیئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور روس جانے سے متعلق اپنے خاندان میں ہونے والے مکالموں کو بیان کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ماسکو لاہور کی طرح زندہ دلوں کا شہر ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے۔ ایک طرف شاہوں کے محلات، ساتھ دریا، باغات اور گرجاگھر دیکھنے کو ملتے ہیں تو دوسری طرف ماسکو یونیورسٹی جیسا جدید اور حسین طرز تعمیر بھی نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر لدمیلا واسلو کا شمار ماسکو بلکہ روس کی معروف شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی اہم شناخت فیض شناسی ہے۔

سوویت یونین میں فیض احمد فیضؔ کو جو عزت وہ تکریم حاصل تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ فیضؔ انقلابی شاعر تھے۔ فیض اور ڈاکٹر لدمیلا واسلو کا ساتھ تقریباً 17سال رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں فیض کی شاعری اپنے حسب حال لگتی ہے اور ہمارے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے۔ پہلی ملاقات فیضؔ سے اس وقت ہوئی جب وہ ماسکو یونیورسٹی کی طالب علم تھیں۔ فیض پہلے ایشیائی شاعر تھے جنھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں 1963 میں لینن پیس پرائز سے نوازا گیا۔

1976 میں ایتھنز لوئس پرائز فار لٹریچر بھی دیا گیا۔ مصنفہ نے یہاں روس کے ادیب میکسم گورکی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ گورکی نے خود کو لینن کی بالشویک تحریک سے وابستہ کیا۔ گورکی نے کچھ عرصہ جلاوطنی میں گزارا۔ اس کا مشہور ناول "ماں " آج بھی انقلابی ادب کی شناخت ہے۔ 1932 میں روس کے مرد آہن اسٹالن کی دعوت پروہ واپس سوویت یونین آیا مگر 1936 میں ایک گہری سازش کے تحت اس کو قتل کر دیا گیا۔ میکسم گورکی کا کام سوئے ہوئے کسانوں میں بیداری کا جذبہ پیدا کرنا اور انھیں اپنے حقوق کا علم دینا تھا۔

مصنفہ نے ایران کا بھی دورہ کیا اور اس کتاب میں ایران کے بارے میں مفید معلومات درج کی ہیں۔ شوق کا سفر سلیم عالم کا چوتھا مجموعہ ہے۔ وہ خوبصورت زبان لکھتی ہیں اور اپنے موضوع کو مکمل پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ بیان کرتی ہیں اور نئے قارئین کو خاص معلومات فراہم کرتی ہیں مگر بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بہت سے پیراگراف مضمون کی طوالت کے لیے استعمال کیے جس کی ضرورت نہیں تھی۔ بہرحال سلیم عالم کا یہ سفرنامہ جو معلومات سے بھرپور ہے اردو کے قارئین کے لیے خوبصورت تحفہ ہے۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar