پنشن کا خاتمہ
پنشن گردشی قرضوں سے بڑا مسئلہ ہے، حکومت پنشن فنڈ قائم کرے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوبرس مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کو بری خبر سنا دی۔
بتایا کہ وفاقی حکومت سالانہ پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ادا کر رہی ہے جب کہ ملازمین کو ملنے والی تنخواہوں کی رقم 500 ارب روپے بنتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں یونیورسٹیوں میں پنشن فنڈ تنخواہوں سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک وزراء اور معزز وزیر اعظم نے اس امر پر اتفاق کا اظہار کیا کہ سابقہ حکومتوں نے سیاسی وجوہات کی بناء پر فیصلے کیے، یوں ادارے دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے دنیا سے بہترین کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جائیں، اس مسئلہ کو منظم طور پر حل کیا جائے۔ عمران خان پنشن کا مسئلہ براہ راست حل کریں گے۔ بقول منتخب وزیر اعظم ملک اب ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن فنڈ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں تمام سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حقدار ہیں۔ خود مختار اداروں کے ملازمین کی تعداد علیحد ہ ہے۔ مغلیہ عہد کے برصغیر کی تاریخی کتابوں میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ یا موت کی صورت میں ان کے لواحقین کو پنشن یا اس سے قریب تر مراعات ذکر نہیں ملتا۔ 18 ویں صدی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں انگریز ملازمین کے علاوہ مقامی افراد کو بھی ملازمت دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
برطانوی حکومت کی پالیسی کے تحت پہلی بار ہندوستان میں سرکاری ملازمین کو پنشن ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب کمپنی نے دہلی کو اپنی نوآبادی کا حصہ بنایا تو سرکاری ملازمین کے علاوہ شاعروں کو بھی پنشن دینا شروع کی۔
عظیم شاعر مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ ؔ اپنے ایک قریبی دوست کے مشورہ پر پنشن کے اجراء کے لیے کلکتہ گئے تھے اور وائسرائے سے پنشن کے اجراء کی درخواست کی تھی مگر مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب برطانوی ہند حکومت نے جدید انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا تو سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال مقرر ہوئی اور پنشن کے اجراء کا سلسلہ شروع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پنشن کے فارمولے میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ ملازم کے دوران ملازمت انتقال کی صورت میں اس کی بیوہ کو تاحیات پنشن ملنے لگی۔
قیام پاکستان کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے فارمولے تبدیل ہوئے۔ اب خواتین ملازمین کی دوران ملازمت انتقال کی صورت میں شوہر پنشن کے حقدار قرار پائے۔ شوہر کے انتقال کے بعد اہلیہ کے انتقال کی بناء پر 21سال تک کی عمر کے بیٹے اور بیٹی کو پنشن ملنے لگی، اگر ملازم شادی شدہ نہ ہو تو پہلے ماں اور ماں کے انتقال کی صورت میں غیر شادی شدہ بیٹی پنشن کی حقدار قرار پائی، یوں ہرسال وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کی شق کا شامل ہونا روایت ہے۔
ہر 5 سال بعد حکومت پے کمیشن مقرر کرتی ہے۔ اس کمیشن میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس سینئر بیورو کریٹس اور اقتصادی ماہرین شامل ہوتے ہیں جو تنخواہوں میں اضافہ کے لیے نئے اسکیل ترتیب دیتے ہیں اور پنشن میں اضافہ کے پہلے ہی سفارشات تیار کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہمیشہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ، مراعات اور پنشن میں اضافہ کو اہمیت دی گئی ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بہت زیادہ اضافہ کیا۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق ہمیشہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کو اہمیت دیتے تھے۔ یوں اب پنشن کی اسکیم صرف سرکاری محکموں اور حکومت کے اداروں میں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں پنشن دینے کی روایت نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں اولڈ ایج انسٹی ٹیوشن (E.O.B.I) کی بنیاد رکھی گئی۔ ادارے نے پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے پنشن کی اسکیم شروع کی، اس پنشن کی اسکیم میں نجی اداروں کو بھی اپنا حصہ ادا کرنا ہوتاہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے نجی اداروں کی سرپرستی کا دور شروع ہوا تو فیکٹری مالکان نے ای او بی آئی کو رقم کی ادائیگی بند کر دی، یوں اب بھی بہت سے انڈسٹریل سیکٹر ای او بی آئی کے دائرہ میں نہیں آتے۔
اب تحریک انصاف کی حکومت نے ای او بی آئی پنشن کی رقم 8 ہزار پانچ سو روپے کر دی ہے مگر اس ادارے کا دائرہ کار خاصا محدود ہے۔ یہ ادارہ ملک کے چند صنعتی شہروں میں متحرک ہے جب کہ دیگر شہروں میں قائم صنعتی اداروں کے کارکنوں کو اپنے دائرہ اختیار میں شامل نہیں کر سکا۔
زرعی شعبہ، چھوٹی صنعتوں اور گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اورکاریگروں کے لیے پنشن کی کوئی اسکیم نہیں ہے۔ پاکستان میں عوام کے لیے فلاحی سہولتوں کا تصور عام نہیں ہے۔ ایماندار سرکاری ملازمین کا انحصار ریٹائرمنٹ کے بعد پرویڈنٹ فنڈ و ماہانہ پنشن پر ہوتا ہے۔ حکومت پنشن کا کوئی بھی نظام نافذ کرے ملازمین کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
ایک ریٹائرڈ استاد پروفیسر اپنے استاد کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ کے یہ استاد اور ان کی اہلیہ پنشن کی عدم ادائیگی کی بناء پر بھوک سے انتقال کر گئے، یوں اگر پنشن ختم ہوئی تو پھر سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد خودکشی کرنے یا غیر قانونی کاموں کی طرف راغب ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہے گا۔
پاکستان میں غیر پیداواری اخراجات کی بناء پر بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ صنعتی ترقی نہ ہونے کی بناء پر پاکستان کی برآمدات کم ہیں اور درآمدات زیادہ ہیں جس کی بناء پر بجٹ خسارہ کم نہیں ہوتا بلکہ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے انھیں من مانی شرائط پر قرضے دیتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے فراہم کردہ قرضے پنشن فنڈ میں خرچ نہیں ہونے چاہئیں۔ اس لیے حکومت پنشن فنڈ سے جان چھڑائے مگر سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے، کم کرنے یا پنشن کو محدود کرنا کسی صورت عوام اور حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔