علمی آزادی کا استعارہ
پاکستان میں مزاحمتی تحریکوں نے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فرد کے زندہ رہنے، عقیدے کی آزادی، تعلیم اور صحت، پیشہ اختیار کرنے، علمی آزادی اور آزادئ صحافت کے حقوق ان ہی تحریکوں کے نتیجہ میں ملے۔ مزاحمتی تحریکوں کی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ سندھ میں ہاری کمیٹی نے ہاریوں کے بنیادی حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کمیونسٹوں نے ٹریڈ یونین تحریک کی بنیاد رکھی۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے سیاسی جماعتوں، دانشوروں، شعراء، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے تاریخی جدوجہد کی۔ آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے حق کو منوانے کے لیے صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے قربانیاں دیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور آگاہی کی تحریک کی بنیاد پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے رکھی۔ ترقی پسند سیاسی جماعتوں نے ان حقوق کے لیے جدوجہد کی۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے عورتوں اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کو غضب کرنے کے لیے قانون سازی کی تو خواتین کی تنظیم وومین ایکشن فورم منظم ہوئی۔ خواتین اور مظلوم طبقات کے لیے عاصمہ جہانگیر کی آوازاٹھی۔ عاصمہ جہانگیر کی جرات اور بے باکی سے متاثرہو کر کئی خواتین نے ان کا راستہ اختیار کیا۔ ان خواتین میں ایک ڈاکٹر عرفانہ ملاح ہیں جو مزاحمتی تحریکوں کا روشن ستارہ ہیں۔ وہ ضلع دادو کے گاؤں سیتاولیج کے ایک روشن خیال خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد غلام محمد کا شمار علاقہ کے ممتاز اساتذہ میں ہوتا تھا۔
انھوں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کی تعلیم پر بھی یکساں توجہ دی۔ عرفانہ ملاح نے انٹر سائنس میں کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹر ی میں داخلہ لیا۔ جب یونیورسٹی کی طالبہ تھیں تو بے نظیربھٹو سیاسی مزاحمتی تحریک کا استعارہ تھیں۔ عرفانہ ملاح نے طلبہ کے مسائل میں دلچسپی لی اور مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی۔
انھوں نے امتیازی نمبروں سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور پھر تحقیق میں مصروف ہوگئیں۔ انھوں نے مقررہ وقت پر اپنا تھیسز مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے سویڈن گئیں اور کامیاب لوٹیں۔ انھوں نے سندھ یو نیورسٹی میں تدریس کا فیصلہ کیا اور استاد کی حیثیت سے تدریس و تحقیق پر مکمل توجہ دی اور سندھ یونیورسٹی کی اساتذہ کی تنظیم کو منظم کرنے میں مصروف ہوگئیں۔
سندھ یونیورسٹی کی اساتذہ کی انجمن سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (S.U.T.A) کی تاریخ تو خاصی قدیم ہے۔ اساتذہ کے حالات کار کو بہتر بنانے اور علمی آزادی (Academic Freedom) کے ادارہ کو مستحکم کرنے میں اس انجمن کا ایک کردار ہے مگر ہمیشہ سے خواتین اساتذہ کی اساتذہ کی انجمن کی سرگرمیوں میں دلچسپی کم رہی ہے۔ ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے انجمن اساتذہ کو مضبوط بنانے کی جدوجہد میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔
سندھ یونیورسٹی اساتذہ تنظیم کے سابق صدر ڈاکٹر بدر سومرو انجمن کی تاریخ بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عرفانہ ملاح 2007-08ء میں انجمن کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔ وہ سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی متواتر 11 سال تک صدر منتخب ہوتی رہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے اہم اداروں اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ کی رکن رہیں، پھر انھوں نے ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں کی اساتذہ یونین کو آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کو منظم کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔
یہ FAPUASA نے پاکستان میں یونیورسٹیوں کی خودمختاری، اساتذہ کے حالات کار اور علمی آزادی کے حق کے تحفظ کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ عرفانہ FAPUASA کی صدر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ معروف سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر ریاض شیخ نے ان کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد کہا کہ عرفانہ علمی آزادی کا استعارہ ہیں۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے ایک استاد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوں کو صرف کیمپس تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ سندھ کے حقوق، مظلوم طبقات کی جدوجہد سے اپنے آپ کو منسلک رکھا۔ کاروکاری، غیرت کے نام پر عورت کا حق، جاگیردارانہ سماج کی فرسودہ رسم کاروکاری کے خاتمہ کے لیے ترقی پسند دانشور و ادیب سیاسی کارکن طویل عرصہ سے جدوجہد کررہے ہیں۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح ان کی ساتھی پروفیسر امر سندھو وغیرہ نے کاروکاری کی رسم کے خاتمہ کی تحریک کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے سندھ کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا اور ان قبرستانوں کا پتہ چلایا جہاں عورتوں کو قتل کر کے خاموشی سے دفن کردیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عرفانہ اور ان کے ساتھی کاروکاری کے ہر کیس کی غیر جانبدارانہ تفتیش اور قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے آگہی کی مہم منظم کرنے والوں میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ اندرون سندھ ایک اہم مسئلہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کا ہے۔ بہت سی کم عمر لڑکیوں کو اغواء کر کے زبردستی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور ان کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عرفانہ زبردستی شادی کے سخت خلاف ہیں اور ان واقعات میں بااثر فراد ملوث رہے ہیں، پھر خواتین کے حقوق عرفانہ کے لیے ہمیشہ سے ایک سنجیدہ اور جذباتی مسئلہ رہا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، اپنی مرضی سے پیشہ اختیار کرنے اور اپنی پسند سے شادی کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا اور انھیں مردوں کے مساوی حقوق نہیں ملیں گے اس ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ابھی چند برسوں تک خواتین کے دن کی تقریبات محض اخبارات میں خصوصی ایڈیشن، ٹی وی چنلز پر کچھ شوز اور چند مباحثوں تک محدود ہیں۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح، پروفیسر امر سندھو اور ان کے ساتھیوں نے اس اہم دن کو عوامی بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے کوشش کی کہ خواتین کی اکثریت 8 مارچ کی ریلی میں شرکت کرے، یوں حیدرآباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر منعقد ہونے والی ریلی میں متوسط طبقہ کے علاوہ نچلے متوسطہ طبقہ کی خواتین نے شرکت کی۔ اس سال جب 8 مارچ کا دن آیا تو بعض رجعت پسند گروپوں نے دھمکی دی کہ وہ سکھر میں خواتین کی ریلی منعقد نہیں ہونے دیں گے۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح، پروفیسر امر سندھو اور وومین ایکشن فورم کے عہدیداروں نے باشعور افراد سے اپیل کی کہ وہ سکھر میں منعقد ہونے والی ریلی میں شرکت کریں، یوں سکھر کی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا اجتماع ہوا۔ ڈاکٹر عرفانہ نے سندھ کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی۔
اس صدی کے 20 برسوں کے دوران تشدد پسند گروہوں نے روشن خیال اور ترقی پسند اساتذہ جن میں پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شیر شاہ، ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر یاسر رضوی، سماجی کارکن سبین محمود، پروین رحمن، انسانی حقوق کے وکیل راشدرحمن وغیرہ کو ان کے خیالات کی بناء پر پہلے دھمکیاں دی گئی تھیں، پھر نامعلوم افراد نے کوقتل کردیا۔ اگرچہ انسانی حقوق کمیشن HRCPخواتین کی حقوق سندھ کی کمیشن، خواتین، ادیبوں، دانشوروں کی تنظیموں نے ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، ضروری ہے کہ ڈاکٹر عرفانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔