اعلیٰ تعلیم کا معیار ؟
زیان کی عمر 8 سال ہے، وہ اپنی عمرکے بچوں سے زیادہ ذہین ہے اور ایک انگریزی اسکول میں زیرِ تعلیم ہے۔ Covid-19کی وجہ سے اس کا اسکول جانا بند ہے اور Online Classکے ذریعے تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ زیان نے اپنی خالہ کو بتایا کہ Online Exams زیادہ اچھے ہیں۔
بقول زیان اس دفعہ مس نے ایک مشکل سوال پوچھا۔ میں نے امی سے کہا، انھوں نے کاپیاں میرے سامنے رکھ دیں اور میں نے تمام سوالات کے درست جوابات دیے۔ زیان ہمیشہ کلاس میں اول آتا ہے۔ زیان نے Onlineامتحانات میں بھی اپنی امتحانی حیثیت کو برقرار رکھا مگر معاملہ صرف پرائمری کلاسوں کا نہیں ہے بلکہ یونیورسٹی کی سطح پر Online Exams مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔
گزشتہ برس جب کورونا وائرس کی سفاکیاں عروج پر تھیں تو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی معاملات میں گہری دلچسپی لینی شروع کی اور ان کی زیرِصدارت چاروں صوبائی وزراء پر مشتمل تعلیمی کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس میں پہلی کلاس سے انٹرمیڈیٹ تک کے طلبہ کے امتحانات نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
صوبائی وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو بغیر امتحان دیے پاس کرنے اور اضافی نمبر دینے کی خوش خبری سنائی تھی۔ تعلیمی معیار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز فیصلہ تھا۔ حکومت نے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میٹرک کے لیے نویں اور انٹرمیڈیٹ کے لیے 11ویں جماعت کی مارک شیٹ میں دیے گئے نمبروں پر انحصارکیا تھا۔ یوں اس دفعہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج صد فی صد رہے مگر جب مارک شیٹ سامنے آئیں تو واضح ہوا کہ جن طلبہ کے نویں اور 11ویں جماعت میں نمبر کم تھے تو ان کے میٹرک اور 12ویں جماعت میں بھی نمبرکم رہے اور بہت سے طلبہ 43 فیصد نمبر حاصل کرسکے۔
سائنس وکامرس طلبا کے لیے سیکنڈ ڈویژن سے کم نمبر حاصل کرنے کا مطلب یونیورسٹیوں میں داخلے کی شرائط کے مطابق نااہل قرار پانا تھا۔ جب میڈیکل اور انجنیئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے طلبہ کے انٹری ٹیسٹ ہوئے تو اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طلبہ کی خاصی تعداد فیل ہوگئی۔
ایک خبرکے مطابق انٹری ٹیسٹ میں مقررہ نمبر حاصل نہ کرنے والے طلبہ ان نمبروں کے اہل نہیں تھے جو انھوں نے امتحان دیے بغیر حاصل کرلیے تھے۔ اسی طرح اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے نااہل طلبہ کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، یوں اتنی بڑی تعداد میں سند یافتہ نااہل طلبہ ملک کے نظام تعلیم اور نظام حکومت کے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہوئے۔
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر صورت امتحانات کے انعقاد کو یقینی بنانا چاہیے تھا۔ یہ امتحانات اگر چھ ماہ تک کے لیے ملتوی ہوجاتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا اب ہوچکا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک وفاقی یونیورسٹی میں Online Examsکے لیے اساتذہ کو پابند کیاگیا کہ وہ مقررہ مدت کے لیے امتحانی پرچہ وائرل کریں اور طلبہ کو 12 گھنٹے دے دیں تاکہ وہ اس دوران سوالات کے جوابات دیں۔
اپنے گھر میں بارہ گھنٹے کے وقفہ میں امتحانات کے جواب دینے کا فیصلہ طلبہ کو مکمل طور پر نقل کا راستہ دکھاتا تھا۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے امتحانی اسائنمنٹ بھی Online لیے۔ اس مقصد کے لیے ہر یونیورسٹی نے ایک پورٹل تیارکیا۔ اس طریقہ سے طلبہ کو ایک دوسرے کے اسائنمنٹ اور نقل کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔
بغیرامتحانات کے تجربے سے انجنیئرنگ اور میڈیکل کے کالجوں کے طلبہ بھی گزرے۔ انجنیئرنگ یونیورسٹیوں کے یہ پریکٹیکل امتحان صرف یونیورسٹی کی تجربہ گاہوں میں ہی ممکن ہیں۔ اب اساتذہ نے محضQuizکے نمبر سوالات کے جوابات پر عملی امتحان کے نمبر دیے جس کی بناء پر سب سے زیادہ ظلم میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوا۔ ان پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں امتحانات میں Online ہونے لگے اور چند ہی دنوں میں یہ امتحانات طلبہ میں مقبول ہوگئے۔ میڈیکل اور جنرل یونیورسٹیوں میں عمومی طور پر Onlineامتحانات کے انعقاد سے ان اداروں کا تعلیمی معیارگرنے لگا، مگر جب یونیورسٹیوں نے فیصلہ کیا کہ Online Examsاس سال نہیں ہونگے تو طلبہ اور اساتذہ میں اضطراب کی لہر دوڑگئی۔
کراچی یونیورسٹی نے جہاں Online Exams کے مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ امتحانی فارمولے میں تبدیلی کردی گئی اور اب 40 فیصد نمبروں کا یونیورسٹی میں امتحان ہوا اور 60 فیصد نمبر Online Exams یا اسائنمنٹ کے لیے مختص کیے گئے، یوں یونیورسٹی کی انتظامیہ نے تعلیمی معیار پر سمجھوتہ کرلیا۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے Physical Exams لینے کا فیصلہ کیا تو پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہوا۔ پولیس نے لاہور اور فیصل آباد میں طلبہ کو منتشرکرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اورکئی طلبہ گرفتار ہوئے۔ طلبہ کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
پولیس کی طرف سے طاقت کے بے جا استعمال سے افسوس ناک صورتحال پیدا ہوئی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت کی اور تعلیمی معیار جیسے اہم مسئلہ کو نظرانداز کرتے ہوئے Online Examsکی حمایت کی۔ یوں سیاستدانوں نے پولیٹیکل اسکورنگ کے لیے کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیا۔
کراچی کے بعض یونیورسٹیوں کے صاحبانِ علم و دانش نے آن لائن امتحان کے خلاف طلبہ کی لڑائی کو استعماری نظام کے خلاف جدوجہد سمجھا اور اس کی حمایت میں سرگرداں ہوگئے۔ ان میں ایک علم و دانش کے مینار نے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ طلبہ کا یہ مطالبہ بالکل درست اور جائز ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ یہ احتجاج ہمہ گیر مربوط اور منظم نہ ہونے کی بناء پر نتائج و اثرات پیدا نہیں کرپایا۔ صاحبان علم و دانش کی جانب سے امتحان میں نقل کے رجحان کی حمایت تعلیمی معیار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔
ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ Online Class صرف کورونا کی وجہ سے مجبوری کی حالت میں تھی، یہ تدریس کا حقیقی طریقہ نہیں ہے۔ اسی طرح Online Examsامتحان کے نام پر مذاق ہے۔ ڈاکٹر عرفان عزیز مزید لکھتے ہیں کہ اب حالات بہتر ہیں تو یونیورسٹیوں کو فزیکل کلاسوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے اور ان اضافی کلاسوں کی کوئی فیس نہیں ہونی چاہیے اورکورس کی تکمیل کے بعد امتحانات ہونے چاہیئیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ Online Examsکے ذریعہ نقل کو ادارہ جاتی حیثیت نہیں دینی چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آن لائن امتحان کے حق میں طلبہ کی درخواست کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس بھیج دیا۔ ایچ ای سی نے یہ معاملہ اب یونیورسٹیوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے، مگر اگر یونیورسٹیوں نے طلبہ کے دباؤ پر آن لائن امتحان لینے کا فیصلہ کیا تو اعلیٰ تعلیم کے معیار پر یہ سیاہ دھبہ ہوگا۔