سولہ برس بعد میثاق جمہوریت پر عملدرآمد
سندھ کی تاریخ میں 27 جنوری کا دن ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کے اطلاعات کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے سندھ انفارمیشن کمیشن کے قوائد وضوابط کا اعلان کیا اور کمیشن کے قوائد وضوابط ایک اخباری اشتہارکے ذریعہ مشتہرکردیے۔
سندھ حکومت نے یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں دائرکی جانے والی ایک پٹیشن کی بناء پرکیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت شہریوں کے جاننے کے حق Right to know، شفاف اورکرپشن کے بیانیہ کے درمیان گزشتہ چالیس برسوں سے سفرکررہی ہے۔ پاکستان میں جاننے کے حق کا تصور 80کی دہائی میں واضح ہوا۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد، جونیجو دور میں سینیٹ کے رکن تھے۔
انھوں نے سب سے پہلے سینیٹ میں اطلاعات کے حصول کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کیا۔ جونیجو دورکی سینیٹ جنرل ضیاء الحق کے سائے تلے دبی ہوئی تھی۔ غلام اسحاق خان سینیٹ کے چیئرمین تھے، یوں اس مسودہ پر سینیٹ کے اراکین نے توجہ نہ دی، جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کردی۔
1988 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنے انتخابی منشورمیں جاننے کے حق کے لیے قانون سازی کی شق شامل کی، مگر پیپلز پارٹی کی پہلی اور دوسری حکومتوں نے اپنے منشورکی پاسداری پر توجہ نہ دی۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کی پیروی کی۔ صدر فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا۔
پیپلز پارٹی کے بانی رکن ملک معراج محمد خان عبوری وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ممتاز ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کچھ عرصہ کے لیے وزیر قانون تھے۔ معروف صحافی ارشاد حقانی وزیراطلاعات اور نجم سیٹھی مشیر اطلاعات کے عہدوں پر براجمان ہوئے۔
فخر الدین جی ابراہیم نے ایک قانون کا ابتدائی مسودہ تیارکیا مگر وہ کچھ دنوں بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ عبوری حکومت کے وزیر اعظم ملک معراج خالد نے اپنی مدت کے آخری دن اس قانون کے مسودہ پر دستخط کیے اور 90 دن کے لیے آرڈیننس کا اجراء ہوا۔
مسلم لیگ ن کے اس وقت کے رہنما مشاہد حسین نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت برسراقتدار آنے کے بعد اس آرڈیننس کو ایک جامع قانون کی شکل دے گی۔ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے اور مشاہد حسین کو وزارت اطلاعات کا قلم دان دیا گیا مگر مسلم لیگ کی حکومت اپنے وعدہ پر عمل نہ کرسکی۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں اطلاعات کے حصول کا قانون نافذ کیا۔ یہ ایک انتہائی کمزور قانون تھا، صرف صوبہ سندھ نے اس طرح کا قانون بنایا۔ 2005میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے مرد آہن نواز شریف کی لندن میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے ہوا۔
دونوں رہنماؤں نے اس میثاق جمہوریت میں یہ عہد کیا کہ اگر دونوں جماعتوں کو موقع ملا تو جاننے کے حق کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007 میں لیاقت باغ راولپنڈی میں شہیدکیا گیا اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئرمین منتخب ہوئے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن اور فرحت اﷲ بابر طویل عرصے سے اس بارے میں قانون سازی کے لیے جستجو کرتے رہے۔ شیری رحمن نئی وزیر اطلاعات اور فرحت اﷲ بابر صدر آصف زرداری کے پریس سیکریٹری بن گئے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی مرحومہ چیئر پرسن کے وعدہ کو عملی شکل دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سینیٹر رضا ربانی آئین میں ترامیم کمیٹی کے چیئرپرسن منتخب ہوئے، یوں رضا گیلانی اور فرحت اﷲ بابرکی کوششوں سے 18ویں ترمیم میں جاننے کے حق کو آئینی تحفظ فراہم ہوا۔ آئین میں آرٹیکل 19-A شامل ہوئی مگر پیپلز پارٹی کی وفاق اور صوبائی حکومتوں نے اس آئینی شق کو عملی شکل دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
2013 کے انتخابات کے بعد خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اطلاعات کے حق کے لیے ایک جامع قانون بنایا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے پنجاب میں اس طرح کی قانون سازی کی۔ اطلاعات کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا کا اطلاعات کمیشن زیادہ خود مختار ہے۔
بہرحال کے پی کے اور پنجاب کے انفارمیشن کمیشن نے مختلف محکموں سے اطلاعات کے حصول کے لیے قابل قدر فیصلے کیے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اخراجات خاص طور پر وزراء اعلیٰ کے ہیلی کاپٹروں کے مسافروں اور نمبروں کے اخراجات کے بارے میں عوام کو پتہ چلا۔ اسی قانون کے تحت خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ہیلی کاپٹر میں تحریک انصاف کے صدر عمران خان کے سفر پر ایک ریفرنس دائر ہوا تھا۔
اخباری ایڈیٹروں کی تنظیم کونسل آف نیوزپیپرز ایڈیٹرز نے نئے قانون کی تیاری کے لیے آگہی کی مہم چلائی۔ تنظیم نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے ملاقات کی۔ تنظیم کے رہنما ڈاکٹر جبار خٹک نے ایک مسودہ قانون وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے حوالہ کیا۔ قائم علی شاہ نے اس موقعے پر اپنی تقریر میں کہا کہ یہ مسودہ قانون کی شکل اختیارکرگیا ہے۔
سندھ حکومت نے 2016 میں انفارمیشن ایکٹ 2016 نافذ کیا۔ اطلاعات کے ماہرین نے اس ایکٹ کا خیرمقدم کیا مگر 2018 تک اس قانون پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہ ہوا۔ 2018 میں سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ انفارمیشن کمیشن کے اراکین کا تقررکیا جائے، یوں کمیشن کے سربراہ اور عہدیداروں کا تقرر ہوا، مگرکمیشن کوکئی برسوں تک بنیادی انفرا اسٹرکچر فراہم نہیں کیا گیا۔ اب 2021 میں حکومت سندھ نے سندھ انفارمیشن کمیشن کے قوائد و ضوابط کا اجراء کردیا ہے۔
ان قوائد و ضوابط میں کمیشن کے ڈھانچہ کی تمام تفصیلات دستیاب ہیں۔ ان قوائد و ضوابط میں بعض خامیاں ہیں مگر پیپلز پارٹی کی پنجاب اور خیبرپختون خوا میں غیر مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی قیادت پر کرپشن کے الزامات ہیں، اگر پیپلز پارٹی انفارمیشن کمیشن کو آزادانہ طور پرکام کرنے کا موقع دے تو یقیناً کچھ وزراء کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا مگر مجموعی طور پر شفاف نظام مستحکم ہوگا اور فائدہ پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کو ہوگا۔