کورونا وائرس کا سیاسی استعمال
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے وائرس نے افراتفری پھیلادی ہے۔ ہر ایک ہی سوال کر رہا ہے کہ کرونا وائرس پر کب قابو پالیا جائے گا؟ بعض حلقوں کی جانب سے اس شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا حصہ ہے اس لئے یہ تیزی پیدا کی گئی ہے۔ امریکہ کی دوسری دشمنی ایران سے ہے، جسے میڈیا میں اس وائرس سے متاثرہ ملکوں میں دوسرے نمبر پر شمار کیا جارہا ہے۔ اس افراتفری میں خریداروں، ذخیرہ اندوزی اور چوری کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ماسکس کی بلیک مارکیٹنگ کا کراچی میں عدالت نے بھی نوٹس لیا۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ماسکس، عینکوں اور دیگر حفاظتی سامان کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ گئی ہیں، مختلف ممالک کی سپر مارکیٹس میں لوگوں کی بڑی تعداد قطاریں لگا کر ماسکس وغیرہ کی خریداری کررہے ہیں۔
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس 80 سے زائد ملکوں تک پھیل چکا ہے اور اس سے دنیا بھر میں 3 ہزار 285 افراد ہلاک اور 95 ہزار سے زائد متاثر ہیں۔ 51 ہزار سے زائد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا بھر کی حکومتوں نے اقدامات تیز کردیے ہیں، وائرس سے اٹلی، ایران، جنوبی کوریا اورامریکا میں ہلاکتوں میں اضافے کے بعد حکام نئے قرنطینہ زونز اور پابندیوں پر غور کررہے ہیں۔
برطانیہ میں متعدد عالمی کمپنیوں نے اپنے دفاتر بند کرلیے ہیں اور لندن کا سالانہ کتاب میلہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ کراچی ادبی فیسٹول وائرس کی افراتفری کے باوجود منعقد ہوا۔ اٹلی میں کورونا کی وباء کو روکنے کیلئے فٹبال میچز میں شائقین پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر بھی غور کیا جارہا ہے، چین کے وسطی خطے کے بعد کورونا سب سے زیادہ اٹلی میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایران میں اعلیٰ عہدیداروں اور رہنمائوں کو ملک سے نہ نکلنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ایران میں متاثرین میں ایرانی نائب صدر، ڈپٹی وزیر صحت اور 23 ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے بھی کورونا سے احتیاطی تدابیر کے طور پر سرکاری تقریب میں دستانے پہن کر شرکت کی، تاجکستان میں کورونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کیلئے مساجد بند کردی گئی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والا پیرس کا لوورے میوزیم بھی کورونا کے خوف سے ویران ہوگیاہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر کے 13 ملکوں میں اسکول بند کردیئے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کورونا وائر س نے دنیا بھر کے 29 کروڑ بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ پاکستان ابھی پولیو سے ہی نہیں نکلا تھا کہ ایک نئی وبا کی لپیٹ میں آگیا۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کا یہ موقف وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بیان کیا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کی وجہ سے کورونا وائرس کیسز چھپانے کی بات 200 فیصد غلط ہے، وائرس کے باعث اسکول بند کرنے کا فیصلہ صوبائی حکومت کا ہے وفاق میں اسکو ل بند نہیں کرینگے، 250 سے زائد مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کئے گئے، 5 مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی لیکن تیزی سے بہتر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا وائرس کے باعث اسکول بند کرنے کا فیصلہ صوبائی حکومت کا ہے، ہم نے اسکول بند کرنے کی تجویز نہیں دی، اسلام آباد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اسکول بند نہیں کیے گئے۔
سب سے زیادہ متاثرہ ملک چین کی سرحدیں سندھ سے نہیں ملتیں۔ اگر کوئی تجارتی مال آتا ہے تو براستہ شاہرہ قراقرم آتا ہے۔ جو کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقوں سے گزر کر آتا ہے۔ یہی صورتحال فضائی سفر کی ہے۔ کورونا وائرس کا خطرہ ملک بھر میں یکساں ہونا چاہئے۔ لیکن کورونا کی وجہ سے پاکستان میں سندھ حکومت زیادہ ڈری ہوئی ہے۔ یہاں اسکول، کالج، یونیورسٹیز اور ٹیوشن سینٹر تک بند کر دیئے گئے ہیں۔ سندھ حکومت تقریباً ہر روز کورونا وائرس کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کرتی ہے، صورتحال کا جائزہ لیتی ہے۔ کراچی میں اگرچہ شہر ی زندگی رواں دواں ہے۔ لیکن سندھ سیکریٹریٹ میں کام کے لئے آنیوالوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح کی صورتحال گزشتہ سال بارشوں کے موقع پر بھی ہوئی تھی، جب کراچی میں برساتی نالوں اور سیوریج کے گٹر بند ہونے پر صوبائی حکومت کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ اور وہ اس دھونس میں آبھی گئی تھی۔ بعد میں لاڑکانہ ضلع میں ایڈز کے پھیلنے کی اطلاع نے بھی حکومت کی خوب خبر گیری کی۔ ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ کراچی میں کتے کاٹنے کے واقعات پر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں شور اٹھا۔ دو ہفتے قبل کراچی کے کیماڑی کے علاقے میں زہریلی گیس کا واقعہ رونما ہوا تھا جس میں نصف درج ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ میں بتایا گیا کہ سویابین کی ڈسٹ کی وجہ سے یہ گیس پیدا ہوئی تھی لیکن کوئی فیصلہ کن رائے سامنے نہ آسکی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت اتنی ڈری ہوئی ہے؟ بلکہ ہر مرتبہ کسی ایک نہ دوسرے مسئلے میں آجاتی ہے؟ اگر کارکردگی درست ہے، انتظامی نظام درست ہے تو چھوٹی بڑی بات پر پریشان کیوں ہو جاتی ہے؟ کیا میڈیا کی ہائیپ کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے؟ کیا کراچی اور سندھ کے دیگرعلاقوں کو درست نہیں رپورٹ کر رہا؟ یا اس کے اپنے معاملات درست نہیں، جس کی وجہ سے اس کے اندر کا ڈر ہے؟ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ بعض حلقے سندھ حکومت کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور پر بلدیاتی انتخابات سے پہلے پورے سندھ میں نہ سہی، کراچی میں ہنگامی صورتحال پیدا کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بھی اتنی ہی ڈری ہوئی ہے جتنی کتوں سے ڈری ہوئی تھی۔ اگرواقعی ایسا ہے تو یہ کورونا وائرس کا سیاسی استعمال ہوگا۔