ایک اور مہنگا سودا؟
ماہرین نے 2002ء میں حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق آئند ہ چند سالوں کے دوران پاکستان کو توانائی کے سنگین بحرانوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث بجلی، گیس اورپانی کی قلت ایک بڑا چیلنج بن جائے گی۔ حکومت نے انتہائی عجلت میں پالیسی تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاورپالیسی 2002تیار کی گئی مگر بدقسمتی کیساتھ قومی مفادکی بجائے پاور پلانٹس لگانے والے مالکان کو ناقابل یقین حد تک منافع دینے کی راہ ہموار کرد ی گئی۔ یہ پالیسی انہی لوگوں نے تیار کرواکر وزارت پانی وبجلی کو ارسال کی تھی۔ جنہوں نے پاور پلانٹس لگانے تھے۔ بجلی کے بعد گیس بحران نے شدت اختیار کی تو حکومت نے ایک مرتبہ پھرانتہائی عجلت میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا فیصلہ کیا۔ ایل این جی ٹرمینل آپریشنل ہوئے تو حکومت کو ہوش آیا کہ یہ بہت مہنگا سودا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے ملکی تیل وگیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کے باعث نئی فیلڈز سے تیل وگیس کی دریافت متاثر بری طرح متاثر ہوئی۔ آپریشنل فیلڈز سے بھی پیداوار ہر سال پانچ فیصد کم ہونے لگی۔ حکومت نے دومزید ایل این جی ٹرمینل لگانے کا فیصلہ کیا۔ ان ٹرمینلز سے درآمدی گیس کراچی سے لاہور لانے کیلئے 1ارب 50کروڑ کیوبک فٹ یومیہ صلاحیت کی پائپ لائن کی ضرور ت پیش آئی۔ لہذا بین الحکومتی بنیادوں پر روس کیساتھ مل کر پائپ لائن تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ روس کیساتھ بین الحکومتی بنیادوں پر پائپ لائن کی تعمیر کی بنیادی وجہ فنڈز کی قلت تھی۔ روس کی سرکاری کمپنی نے 2015ء میں پائپ لائن منصوبے میں سرمایہ کاری کی حامی بھری تو معاہدے کو حتمی شکل دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا توروسی کمپنی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ایک اہم پاکستانی شخصیت نے بھرپور لابنگ شروع کردی۔ وزارت توانائی کے حکام کو قائل کیا گیا کہ یہ منصوبہ روسی کمپنی کی تجویزکردہ لاگت پر ہی روس کو ایوارڈ کیا جائے اور اب اس منصوبے کی لاگت جو 2015ء میں ڈیڑھ ارب ڈالرتھی اب اڑھائی ارب ڈالر ہوگی۔ تین سالوں میں منصوبے کی لاگت میں 1ارب ڈالر اضافے نے پیٹرولیم ڈویژن کے حکا م کو پریشان کردیا۔ کچھ سرکاری افسران کو اندازہ ہوگیا کہ یہ معاملہ کسی اور جانب بڑھ رہاہے۔ یہ پائپ لائن منصوبہ ماضی کے منصوبوں کی طرح عوام اور قومی خزانے پر بھاری بوجھ بننے جارہا ہے۔ اسی اثناء میں سپریم کورٹ نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج وصولی کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمی نے وزارت توانائی کی سرزنش کرتے ہوئے قرار دیا کہ مختلف گیس صارفین سے وصول ہونیوالی گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی رقم قانون کے مطابق صر ف توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوسکتی ہے۔ 300ارب روپے سے زائد رقم جمع ہوچکی مگر توانائی کے منصوبے پر خرچ نہیں کی گئی۔ بوکھلاہٹ کی شکار حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر پر اس رقم کو خرچ کرے گی۔ لہذا اب ثابت ہوچکا تھا کہ فنڈز کا مسئلہ نہیں۔ اس منصوبے کا نام اب پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ رکھا دیا گیا ہے۔ فنڈز کا مسئلہ حل ہونے پر پاکستانی حکام اورعوام خوش تھے کہ اب یہ منصوبہ غیر ملکی کمپنی نہیں بلکہ پاکستانی کمپنیاں تعمیرکریں گی۔ لاگت میں کمی اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت سے قومی خزانے کو خطیر فائدہ ہوگا۔ مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ روسی کمپنی کے حکام نے وزارت توانائی کو پھر قائل کرلیا کہ 70فیصد سرمایہ پاکستان جبکہ 30فیصد روسی کمپنی فراہم کرے گی مگر شرط یہ ہوگی کہ پائپ کی تعمیر میں روسی کمپنی بطور انجینرنگ، پروکیورمنٹ اینڈ کسنٹرکشن(ای پی سی)کنٹریکٹر کے طور پر کام کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ پائپ لائن تعمیر ہونے کے بعد آپریٹ بھی روسی کمپنی کرے گی۔ پائپ لائن آپریٹ کرنے کا ماڈل آئی پی پیز کی طر ز پر ہوگا۔ یعنی پائپ لائن سے گیس گزرے یا نہ گزرے کپسیٹی پے منٹ پاکستان کو ادا کرنا ہوگی۔
کابینہ کمیٹی برائے توانائی میں معاملہ زیرغو ر آیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے روسی ماڈل پر کی مخالفت کرتے ہوئے دوٹوک موقف اختیار کیا کہ روس کے مقابلے میں پاکستانی کمپنیاں کم قیمت پر یہ پائپ لائن تعمیرکرسکتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ روسی کمپنیوں کے ذریعے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کے مطابق منصوبہ مکمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ملکی وقومی مفاد کا تقاضاہے کہ ہی پائپ لائن پاکستانی کمپنیاں تعمیر کریں۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کو یہ معاملہ سمجھی گئی لہذاپیٹرولیم ڈویژن کو کمیٹی نے ہدایت کی کہ جولائی کے وسط تک متبادل پلان پیش کیا جائے۔ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر بھی روسی کمپنیوں کے بیشتر مطالبات سے انکار کرتے ہوئے اس منصوبے پر تحفظات کااظہار کردیا۔
سوئی نادرن گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی تا لاہور گیس پائپ لائن دو ارب 70 کروڑ ڈالر میں نہیں بلکہ صرف ایک ارب ڈالر میں تعمیر کی جاسکتی ہے جس میں سوئی نادرن گیس کمپنی کو 25 فیصد منافع بھی ملے گا۔ سابق ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں یہ منصوبہ ایک ارب ڈالر کی لاگت میں تعمیر کرنے کیلئے سپیشل نوٹ بھی تحریر کیا تھا، جس کی پاداش میں انہیں عہدے سے ہٹادیا گیا۔ وزیراعظم اور رائٹ کوارٹرز کی دن رات کی کاوشوں سے تین سال بعد آئی پی پیز کے معاہدوں میں ترمیم کرواکر 600ارب روپے کی بچت کی گئی ہے چونکہ عوام اور قومی خزانہ میں آئی پی پیز کی شرائط پر مالی بوجھ اٹھانے کی سکت ختم ہوچکی تھی۔ اب روسی کمپنی آئی پی پیز ماڈل پر منصوبے تعمیر کرنے کا مطالبہ کررہی ہے تو کیاایک مرتبہ پھر عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا جائے گا؟ کمزور پالیسی، یکطرفہ معاہدوں اور مہنگے منصوبوں کے باعث عوام اورمعیشت سسکتے ہوئے دہائیاں دے رہی ہیں کہ خدارا اب مہنگے سودوں کا کاروبار ترک کیجئیے۔ اسی میں عوام کی فلاح اور حکمرانوں کی عافیت ہے۔