تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں
یوں تو دنیا کی سپر پاور ہونے کی وجہ سے امریکا کے صدارتی انتخابات پر عالمی برادری کی توجہ ہمیشہ سے ہی مرکوز رہی ہے۔ لیکن اس مرتبہ کے انتخابات کی بات ہی کچھ اور تھی۔ صدارت کی گدّی پر براجمان ڈونلڈ ٹرمپ کی عجیب و غریب شخصیت اور ان کی دلچسپ بیان بازی نے عجیب سماں باندھ دیا تھا۔
امریکا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب کرسی صدارت سنبھالے ہوئے ہٹ دھرم صدر نے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی یہ تڑی لگا دی تھی کہ ہارنے کی صورت میں وہ انتخابی نتائج کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان کی شکست کا مطلب ہوگا انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس لیے انھوں نے انتہائی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے "میں ناں مانوں " کا واضح اعلان کر کے امریکا کی سیاست میں ہٹ دھرمی کی ایک نئی بدعت کو متعارف کروایا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک پرانی ضرب المثل کی تبدیل شدہ عبارت یہ ہوگی "جنگ، محبت اور سیاست میں ہر چیز جائز ہے"۔
اس پرانی روایت کے ساتھ ساتھ ایک اچھی بھی روایت قائم ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکا کی برسوں پرانی تاریخ میں امریکا کے نائب صدر کا عہدہ کسی خاتون "کملا ہیرس" کے حصے میں آیا ہے۔ بہرحال ٹرمپ نے بھی انتخابی نتائج کے سامنے آنے سے قبل ہی خود کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ امریکا میں غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب کسی امیدوار کی فتح کو تسلیم کرنے سے صریحاً انکار کرتے ہوئے اس کے مخالفین شدید احتجاج اور ہلڑ بازی کرتے ہوئے جلاؤ گھیراؤ پر اُتر آئے۔
ٹرمپ کی شکست کو اگر نوشتہ دیوار کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ ان کا خود کا کیا دھرا ہے جس پر فارسی کی مشہور کہاوت ہے "خود کردہ را علاج نیست" لفظ بہ لفظ صادق آتی ہے۔ ان کی معنی مضحکہ خیز حرکتیں، نازیبا اندازِ گفتگو اور گھٹیا طرزِِ عمل کسی طور بھی وائٹ ہاؤس کے مکین کے شایانِ شان نہیں تھا۔ لہٰذا اگر وہ یہ سوال کریں کہ مجھے کیوں نکالا؟ تو اس پر سیدھا سادہ جواب ہے "آپ کی حرکتوں نے آپ کو وائٹ ہاؤس سے نکلوایا ہے"۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کو جس بے عزتی کے ساتھ ایوان ِ صدر سے نکالا ہے اس پر یہ شعر بار بار یاد آ رہا ہے:
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
امریکا کے صدارتی انتخابات کے موقع پر امیدواروں کے درمیان ہونے والے مباحثے امریکا کے سیاسی کلچر کی روح ِ روا کا درجہ رکھتے ہیں۔ لگتا ہے ٹرمپ کے ستارے آج کل گر دش میں ہیں کیوں کہ خبر گرم ہے کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد ان کی شریکِ حیات بھی ان کی پندرہ سالہ رفاقت کو چھوڑ کر اور شادی کا بندھن توڑ کر چلی جائیں گی۔ ٹرمپ کے آمرانہ مزاج، ضدی طبیعت، جارحانہ طرز ِ عمل کی وجہ سے ہی نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ نہ صرف کرسیِ صدارت ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے بلکہ ان کی رفیقہ حیات بھی انھیں ہمیشہ کے لیے ٹاٹا اور بائے بائے کہنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ سچ پوچھیے تو ٹرمپ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
کورونا کی عفریتی وبا سے نمٹنے میں بری طرح ناکامی بھی صدر ٹرمپ کی الیکشن کی 59 میں ہارنے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر ان کا موازنہ ان کے مدِ مقابل جوبائیڈن سے کیا جائے تو وہ قابلیت، اہلیت، تجربہ اور سیاسی سوجھ بوجھ کے لحاظ سے ان کے برابر تو کیا پاسنگ بھی نہیں ہیں۔ ہیلری کلنٹن سے بھی ان کی جیت میں الیکٹورل کالج کا کردار کلیدی رہا ہے یہ تاثر عام ہے کہ امریکی عوام نوجوان قیادت کو پسند کرتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے حالیہ الیکشن میں جیت 77 سال کے بوڑھے جوبائیڈن کو نصیب ہوئی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا میں صدر کی تبدیلی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں اپنی بلا سے بوم رہے یا ہُما بسے۔ لیکن ہمیں اس سے ذرا بھی اتفاق نہیں تاریخ گواہ ہے کہ امریکا کے ساتھ ہماری یاری برسوں پرانی ہے اس طویل دوستی میں بہت سے نشیب و فراز آئے ہیں۔ نشیب زیادہ اور فراز کم۔ اس دوستی کی خاطر ہم نے روس کی دشمنی مول لی اور سوویت یونین کے خلاف جنگ میں اپنے وجود تک کو داؤ پر لگا دیا جس کے بعد اُس نے ہمیں یک سر بھلا دیا۔ امریکا کی خاطر دی گئی قربانیوں کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
لیکن مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس تعلق کو نہ توڑیں۔ جہاں امریکا کی بے وفائی کو یاد کر رہے ہیں وہاں امریکی دوستی سے ہونے والے فوائد کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ امریکا نے مشکل وقت میں پاکستان کی مالی اور دفاعی امداد بھی کی۔ پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی بھی فراہم کی۔ پاکستانی طلبہ کو امریکا میں پڑھنے کے لیے وظائف بھی مہیا کیے۔
امریکا کے ساتھ ہمارے محض سفارتی تعلقات ہی نہیں بلکہ دفاعی اور معاشی تعلقات بھی وابستہ ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ امریکا کا صدر کون بنتا ہے۔
اگر چہ جوبائیڈن 3 نومبر کے صدارتی انتخاب میں کامیاب قرار دیے جا چکے ہیں لیکن ابھی صورتحال قطعی واضح نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی آئین میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھا کر سفید فام اکثریت ٹرمپ کو صدر برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے جیسا کہ ماضی میں ہیلری کلنٹن کے معاملے میں ہوچکا ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ "جاٹ مرا تب جانیے تیرھیوں لے جب ہوئے"۔
امریکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس بارے ابھی وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالے سے کوئی قیاس آرائی بھی محض مشق ِرائیگاں ہوگی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ اگر خدا نخواستہ ٹرمپ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا تو یہ ٹارزن کی واپسی نہیں بلکہ زخم کھائے ہوئے خوں آشام بھوکے آدم خور بھیڑیے کی خوفناک واپسی ہوگی۔