رِچی بینو کی یاد میں
گزشتہ 10 اپریل کو موت نے عالمی شہرت یافتہ آسٹریلوی کرکٹ کھلاڑی رِچی بینو (Richie Benaud)کو ان کے بے شمار پرستاروں سے چھین کر اپنے پنجہ ستم میں دبوچ لیا تو ہمیں T.S Eliot کا یہ قول یاد آگیا کہ اپریل کا مہینہ بڑا ظالم ہوتا ہے۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اسی ماہ کی 21 تاریخ کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ رچی بینو جیسے عظیم کھلاڑی روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
رچی بینو ایک پیدائشی کرکٹر تھے اور لیگ اسپن بولنگ ان کی گھٹی میں شامل تھی جو انھیں ان کے والد ٹوئس بینو سے ورثے میں ملی تھی۔ انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 25 جنوری 1952 کو ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف میچ کھیل کر کیا تھا جب کہ ان کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام 12 فروری1964 کو جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گئے میچ کے ساتھ ہوا تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز سے پہلے وہ 1948 سے 1964 تک نیو سائوتھ ویلز کی ٹیم کی طرف سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے رہے۔
انھوں نے 1958 سے 1964 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک آسٹریلوی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی کی۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 200 وکٹیں حاصل کرنے اور 2000 رنز اسکور کرنے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل تھا۔ سری لنکا کے کرکٹ رائٹر ہیریلڈ ڈی اینڈ راؤ کے بقول "رچی بینو سر ڈان بریڈ مین کے بعد آسٹریلیا کے عظیم ترین کرکٹ کھلاڑی تھے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے علاوہ بلند پایہ محقق، لکھاری، نقاد، اتھارٹی، مصنف، آرگنائزر اور ایڈوائزر بھی تھے۔ اس حوالے سے اگر انھیں ہمہ صفت موصوف کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔
رچی بینو 1930 میں پین رِتھ(Penrith) نیو سائوتھ ویلز میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک کرکٹر گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی جون بینو بھی آسٹریلین ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ رچی آسٹریلیا کے واحد کرکٹ کھلاڑی تھے جنھیں برطانیہ کی طرف سے او۔ بی۔ ای کے شاہی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ وہ دائیں ہاتھ سے بلے بازی اور لیگ اسپین بولنگ کرنے والے مایہ ناز آل راؤنڈر تھے۔
1964 میں کرکٹ کے کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے بحیثیت کمنٹیٹر اپنے نئے کیریئر کا آغاز کیا اور اس میں بھی اپنے اختصاص کو برقرار رکھا اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی وفات سے دنیائے کرکٹ نہ صرف ایک عظیم آل راؤنڈر سے بلکہ ایک بے لاگ کرکٹ مبصر سے محروم ہوگئی۔ ان کے لہجے کی مٹھاس، الفاظ کے انتخاب اور انداز بیاں کو سامعین کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ بقول غالب:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
ان کی مدھر آواز سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی تھی۔"Morning Everyone" کے الفاظ سے ان کے منفرد انداز تخاطب کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ ان کی یہ رس بھری آواز ان کے مداحوں کے دل نصف صدی تک لبھاتی رہی۔ آواز، وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔ پی بی شیلی کی خوبصورت نظم میوزک وین سوفٹ وائسز ڈائی (Music when soft voices die) اس موقع پر یاد آ رہی ہے۔ رچی بینو 84 سال کی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ کرکٹ کی ترقی اور فروغ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ افسوس کہ وہ ورلڈ سیریز کرکٹ پروجیکٹ کو مکمل کرنے سے پہلے ملک عدم سدھار گئے۔ مائیکرو فون ان کی رخصتی کے بعد ان کی آواز کو ترستا ہی رہے گا اور ان کے ہم عصر ان کی عدم موجودگی کو سدا محسوس کرتے رہیں گے۔
رچی بینو کرکٹ میں اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے لیکن ان کی انکساری نے اسے کبھی بار خاطر نہیں ہونے دیا۔ پہلے تولنا اور پھر بولنا ان کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ مجال نہیں کہ بلا ضرورت کبھی ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نکلا ہو۔ ان کا ذوق مزاح بھی انھی کا حصہ تھا۔ کرکٹ کمنٹری پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ بحیثیت بولر انھوں نے اپنے بعد آنے والے کھلاڑیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے جن میں آسٹریلیا کے مشہور بائولر شین وارن سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے 63 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 248 وکٹیں حاصل کیں اور 2201 رنز اسکور کیے۔
کرکٹ کے میدان میں بحیثیت کپتان ان کا ایک منفرد انداز تھا۔ ان کی شرٹ کے بٹن ہمیشہ کھلے رہتے اور سر بھی کرکٹ کیپ کے بغیر ہوتا۔ بحیثیت کپتان ان کا انداز ہمیشہ جارحانہ رہا۔ وہ اپنی زندگی میں ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ قسمت ہمیشہ حوصلہ مند کا ساتھ دیتی ہے یعنی ہمت مرداں مدد خدا۔ ان کی وفات پر یہ شعر فضا میں گونج رہا ہے:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
کرکٹ جو کبھی لارڈز کا گیم ہوا کرتا تھا اب یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کی منزل سے گزر کر اب نوبت ون ڈے اور اس کے بعد T-20 تک آ پہنچی ہے۔ کیری پیکر نامی بازی گر نے اس کی کایا ہی پلٹ ڈالی۔ اب کرکٹ کھیل سے زیادہ کاروبار بن چکا ہے جس میں شہرت کے علاوہ بے تحاشا دولت بھی ہے۔ سو کوئی بعید نہیں کہ کسی روز آپ کو اس وقت اپنے کانوں پر یقین نہ آئے جب آپ کو اچانک یہ سنائی دے کہ:
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ کرکٹ کا کاروبار چلے
کرکٹ کے کھیل کی انقلابی تبدیلیوں نے عاشقی کے مزاج کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ جو قاتل حسینائیں پہلے فلمی ہیروز کی دیوانی ہوا کرتی تھیں اب وہ نذرانہ دل کرکٹ ہیروز کو پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔