نصیر ترابی کی یاد میں
موت ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی فرار۔ اس کا ایک دن، تاریخ اور وقت مقرر ہے۔ مرزا غالبؔ کے بقول:
موت کا ایک دن معین ہے
نیندکیوں رات بھر نہیں آتی
فقیر منش شاعر بھگت کبیر نے موت کو مالی، دنیا کو گلشن ہستی اور انسانوں کو پھول وکلیوں سے نہایت خوبصورت تشبیہ دیتے ہوئے یہ دوہا تخلیق کیا ہے۔
مالی آوت دیکھ کے کلیاں کہت پکار
پھول پھول چُن لے گیو کالھ ہماری بار
ترجمہ: مالی (موت) کو آتا ہوا دیکھ کرکلیاں پکار پکارکر یہ کہتی ہیں کہ وہ آ رہا ہے اور پھولوں کو چن چن کر لے جائے گا اورکل ہماری باری آجائے گی۔
کبیر نے اپنے ایک اور دوہے میں انسان کی زندگی کو پانی کے بلبلے اور صبح کے تارے سے تشبیہ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
پانی کیرا بُدبُدا اَس مانَس کی جات
دیکھت ہی چھپ جات ہے جوں تارا پر بھات
ترجمہ: انسان کی زندگی پانی کے بلبلے کی طرح ناپائیدار ہے اور یہ صبح کے تارے کی طرح مختصر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے غروب ہو جاتا ہے۔ میرؔتقی میر نے اسی خیال کو اپنے شعر کے سانچے میں اس طرح ڈھالا ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
فانیؔ بدایونی نے موت کو ماندگی کا وقفہ قرار دیتے ہوئے یہ شعر کہا ہے:
موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
برج موہن چکبستؔ نے موت کے حوالے سے بڑے کمال کا شعرکہا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انھی اجزاء کا پریشان ہونا
قصہ مختصر یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ چند روزہ زندگانی ہے۔ کُلُّ نفسٍ ذائقۃ الموت زندگی ایک سفر ہے، جس میں طرح طرح کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ایک دن موت کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتے ہیں۔ بس یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔
جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں تنہائی میں تڑپانے کو
گزشتہ 8 جنوری کو ہمارے ساتھ یہی سانحہ پیش آیا۔ ہمارے پیارے دوست نصیر ترابی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ یاری اور وضع داری ان پر ختم تھی۔"پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں " والی کہات ان پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ قدرت نے انھیں بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کی شخصیت پہلو دار تھی۔ وہ بڑے باپ کے بیٹے تھے۔ ان کے والد بزرگوار علامہ رشید ترابی کی علمیت اور عظمت کا ڈنکا ساری دنیا میں بجتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا یہ دعویٰ سو فیصد درست تھا کہ پدرم سلطان بود، لیکن انھوں نے اپنا مقام خود پیدا کیا، بقول اقبال:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
نصیر ترابی حیدر آباد (دکن) کے ایک عالی گھرانے میں 15 جون 1945 کو پیدا ہوئے۔ علم و ادب ان کی گھٹی میں شامل تھا اور زبان دانی انھیں ورثے میں ملی تھے، جسے انھوں نے اپنی محنت اورکاوش سے دوآتشہ کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل انھوں نے جامعہ کراچی سے صحافت کے مضمون میں M.A پاس کرکے کی اور اپنے کیریئر کا آغاز ایک معروف انشورنس کے ادارے میں پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے کیا۔
مگر ان کی شہرت کی خوشبو ان کی شاعری سے پھیلی جس کی بدولت انھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار صف اول کے شعرائے کرام میں ہونے لگا۔ غزل ان کی پسندیدہ صنف سخن قرار پائی۔
اس صنف سخن کا انتخاب انھوں نے میر، غالب، انیس اور اقبال جیسے عظیم شاعروں سے متاثر ہو کر کیا۔ انھوں نے روز اول سے لے کر تادمِ آخر غزل کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اپنے ہم عصر بہت سے شعرا کرام کی روش سے اجتناب کرتے ہوئے انھوں نے غزل گوئی میں اپنے جوہر خوب دکھائے جس کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ کلاسیکی انداز کی غزل گوئی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ انھوں نے بسیار گوئی سے ہمیشہ اجتناب کیا، کیونکہ وہ مقدار کے نہیں، معیارکے قائل تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام دیگر ہم سخنوں کے مقابلے میں نمایاں کشش رکھتا ہے۔ اس حوالے سے وہ بلاشبہ نابغہ روزگار قرار پائے ہیں۔ ان کی شاعری کے دونوں مجموعے (عکس فریادی، اور لاریب،) ان کے لازوال شاہکار ہیں۔ شاعری کے علاوہ اُردو زبان سے ان کا شغف بھی بڑا گہرا تھا اور اُردو لغت سے انھیں فطری دلچسپی تھی جس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کی کتاب "شعریات" ہے جسے ملک کے معروف ادارہ پیراماؤنٹ پبلشنگ ہاؤس نے نہایت اہتمام کے ساتھ شایع کرکے اُردو زبان و ادب کی ناقابل فراموش خدمت انجام دی ہے، جس کا کریڈٹ اس ادارے کے روح رواں اقبال محمد صالح کو جاتا ہے۔
اپنے مرحوم دوست نصیر ترابی مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چند برجستہ اشعار پیش خدمت ہیں جن میں آپ کو ان کی ایک انتہائی مقبول غزل کا عکس دکھائی دے گا:
وہ باوفا بھی تھا اور اس میں دل ربائی بھی تھی
یہ بات ہم نے کئی بار آزمائی بھی تھی
عجیب رنگ تھا رندانہ اس کی گھٹی میں
چھپی چھپی سی مگر اس میں پارسائی بھی تھی
عجیب شخص تھا اور اس کی شاعری بھی عجیب
قلندری میں مگر اس کی کج کلاہی بھی تھی
عجیب طرز تکلم، عجیب سا ہی مزاج
عجیب لہجے میں اپنی غزل سنائی بھی تھی
مثال تیر اترتی گئی دلوں میں شکیلؔ
کسی نے اس کی غزل اس طرح سے گائی بھی تھی