کورونا کی نئی لہر
اِن دنوں ہماری حالت بڑی عجیب سی ہے۔ ہر گھڑی ہر آن ایک انجان اور ناقابل بیان سہم اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ لمحہ لمحہ ایک دھڑکہ سا لگا رہتا ہے۔ فون کی گھنٹی خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے جس کے بجتے ہی دل کی دھڑکن یک بہ یک تیز ہوجاتی ہے اور جسم لرزنے لگتا ہے۔
گزشتہ چند روز قبل بھی یہی ہوا۔ فون کی گھنٹی بجی تو ہم نے کپکپاتے ہوئے اپنا موبائل اُٹھایا تو ہم نے فوراً پہچان لیا کہ ہمارے عزیز دوست اور اسمِ بامسمیٰ عزیز احسن تھے۔ منفرد لب و لہجے کے نعت گو شاعر، نقاد اور بہت کچھ۔ لرزتی ہوئی آواز میں انھوں نے بمشکل تمام صرف اتنا کہا کہ "بھائی! ہمارے لیے ایک بری خبر ہے کہ کلیم الحق اسلام آباد میں کورونا سے انتقال فرما گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کیا کہا؟ کلیم بھائی کا انتقال ہوگیا!"ہمارا استفسار فطری تھا کیونکہ ابھی کچھ عرصہ قبل جب وہ معہ اہلِ خانہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے اسلام آباد سے کراچی آئے ہوئے تھے تو ان سے فون پر خاصی گپ شپ رہی اور انھوں نے آیندہ کراچی آنے پر ہم سے ملاقات کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور ِ خدا ہوتا ہے کلیم بھائی کی اچانک المناک وفات کے حوالے سے اپنا ہی شعر نوکِ قلم پر آگیا ہے:
بُجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ
رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں لوگ
ہم کلیم بھائی کے پسماندگان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ربِ کریم کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ اس نیک خُو اور پیکر محبت کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صبر ِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین، بلا شبہ مرحوم اعلیٰ اوصاف کا ایک حسین مجموعہ تھے۔
خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں
ملک چین سے نکل کر پوری دنیا کے کونے کونے تک پھیل جانے والی عفریتی وباء کورونا نے دنیا بھر کے انسانوں کے سروں کے اوپر مرگِ نا گہانی کی تلوار لٹکا دی ہے جس نے ان کا سکون اور چین چھین لیا ہے اور نظامِ زندگی درہم برہم کر دیا ہے۔
ہر انسان کو ہر دم یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ معلوم کب یہ تلوار اچانک ٹوٹ کر گر پڑے اور اس کا کام تمام کر دے البتہ اس وباء نے دنیا بھر کے بھٹکے ہوئے انسانوں کو برابری کا سلوک کر کے مساوات کا سبق سکھا دیا ہے۔ کورونا کا رویہ بلالحاظ مذہب و ملت، ملک و قوم سب کے ساتھ ایک جیساہے۔
اس کی نظر میں امیرو فقیر اور خواص و عوام سب کے سب ایک برابر ہیں "گویا ایک بیماری سب پہ بھاری "۔ کورونا نے دہشت گردی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کر اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔
امریکا جیسی سُپر پاور نے بھی اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں سب سے زیادہ تباہی امریکا ہی کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھارت کا نمبرہے جو آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیری جانبازوں اور بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یعنی بھارتی مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔
عفریت کورونا نے ساری دنیا میں زبردست کہرام مچایا ہوا ہے اور ہر جگہ ایسا خوف و ہراس چھایا ہوا ہے کہ الا مان و الحفیظ۔ ساری خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ پھولوں جیسے کھلتے ہوئے چہرے مرجھا گئے ہیں اور بہت سے روشن چراغ دیکھتے ہی دیکھتے گُل ہوگئے ہیں۔
کورونا کی بھینٹ چڑھنے والوں میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ یہ ظالم ہلاکت خیز وباء بڑی سفاک اور سنگ دل ہے۔ یہ وہی بلا ہے جس کے بارے میں نظیر اکبر آبادی نے ببانگِ دہل یہ کہہ دیا ہے کہ:
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
کووڈ۔ 19 المعروف کورونا دیگر وباؤں سے قطعی مختلف ایک نہایت پُراسرار اور عجیب و غریب چھوت کی جان لیوا وباء ہے جو گرگٹ سے بھی زیادہ چہرے اور رنگ بدلتی ہے۔ پہلے اس کے کاٹے کا کوئی منتر نہیں تھا مگر اب یہ خوش خبریاں آرہی ہیں کہ اس کی ویکسین تیار کرلی گئی ہے جو آزمائش کے مراحل سے گزرنے کے بعد عنقریب بازار میں دستیاب ہوگی۔
دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں وطن عزیز پاکستان پر کورونا کی گرفت بہت زیادہ سخت نہیں تھی کیونکہ اس مملکت ِ خدا داد پر اللہ تعالیٰ کا بھی خاص فضل و کرم تھا جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس موذی وباء نے قیامت ِ صغریٰ بر پا کر دی۔
کورونا کے خلاف جنگ میں کامیابی کا سہرا حکومت اور عوام کے بھی سر ہے۔ حکومت نے ایک کارگر حکمتِ عملی وضع کی اور عوام نے اس پر عمل کر کے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بھر پور تعاون کیا۔
بھارت میں معاملہ اس کے برعکس رہا جس کا اسے بھر پور خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ابھی کچھ دنوں قبل کورونا نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور اس کی ایک زبردست نئی لہر آئی ہے جو پہلے سے بھی زیادہ پُر زور اور تشویشناک ہے، لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں کیونکہ حکومت تیار اور عوام بیدار ہیں وزیر اعظم عمران خان نے صورتحال کا بروقت نوٹس لے لیا ہے اور حکومت کی جانب سے تمام ضروری اور مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے 16 نومبر کو قوم سے اپنے خطاب میں کووڈ۔ 19 کے کیسز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر اظہار تشویش کرتے ہوئے عوامی اجتماعات پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی جس میں خود ان کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ( پی۔ ٹی۔ آئی) بھی شامل ہے۔
حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ ان کے اظہار ِرائے کے آئینی حق کی سرا سر خلاف ورزی ہے جس کا اصل مقصد محض ان کے منہ پر تالا لگانا ہے تاکہ وہ حکومت کی ناقص کارکردگی کا سارا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھولنے سے باز آجائیں۔
اگر اپوزیشن کے اس موقف کو آئین کی رُو سے درست بھی مان لیا جائے تب بھی ملکی اور عوامی مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس جان لیوا وباء کی وجہ سے ناحق ہونے والی ہلاکتوں سے بچاؤ کی خاطر تمام سیاسی اور غیر سیاسی اجتماعات اور تقریبات پر صورتِ حال میں بہتری آنے تک پابندیاں عائد رہیں اور ان پر سختی سے عمل کیا جائے کیونکہ انسان کی جان سب سے قیمتی ہے جان ہے تو جہاں ہے۔
کوروناNCOC کے فیصلوں پر عمل در آمد لازمی قرار دے کر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا حق ادا کر دیا ہے اور بہت سی قیمتی انسانی جانوں کو محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر بے رحم کورونا کے منہ کا نوالہ بننے سے بچا لیا ہے۔