بھارت ہٹ دھرمی سے باز آجائے
دنیائے سیاست میں سیاست گری کے گُر سیکھانے والے دو ایسے گُرو گھنٹال گزرے ہیں جن کے کاٹے کا منتر نہیں اور جن کی عیاّری و مکّاری کا شیطان بھی لوہا مانتا ہے۔ ان میں ایک کا تعلق قدیم ہندوستان سے ہے اور دوسرے کا اٹلی سے۔ پہلے والے کا نام کوٹلیّہ عرف چانکیّہ اور دوسرے کا نام میکا ولی ہے۔
اول الذکر ہندوستان کے حکمران چندر گُپت موریہ کا مشیرِبا تدبیر اور آخرالذکر سیاسی گُر اور شاہ کا صلاح کار تھا۔ کوٹلیّہ لکھی ہوئی کتاب "ارتھ شاستر" اور میکا ولی کی کتاب کا عنوان " پرِنس" ہے۔ دونوں لکھاریوں کا قارواہ ایک ہی ہے کیونکہ دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں حکمرانی کے گُر سکھائے ہیں۔ دونوں کا اس بات پر مکمل اتفاقِ رائے ہے کہ کامیاب حکمرانی جائز و ناجائز کی تمیز سے قطعاََ بالا تر ہے یعنی End Justifies The Means بہ الفاظ ِ دیگر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے جو چا ہے کریں۔
بھارت کے تمام حکمرانوں کا چانکیّہ کی رائے سے مکمل اتفاق ہے۔ اختلاف محض طریقہء واردات پر ہے۔ اسلام اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے بھارت کی سابقہ کانگریس پارٹی کی حکومتوں اور آر ایس ایس کی حمایت یافتہ موجودہ بی جے پی کی حکومت کی سوچ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف اپروچ میں ہے۔ کانگریس کی اپروچ" منہ میں رام رام بغل میں چھُری" کے اصول پر مبنی ہے جب کہ بی جے پی والے شمشیرِ برہنہ کی صورت میں کھلم کھلا تشدد کے قائل ہیں۔
آزاد بھارت کی خالق جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے سرکردہ رہنما اور بھارت کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو پاکستان کے وجود کے ازلی دشمن تھے جسے ان کی دختر وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دسمبر 1971 میں دولخت کر کے اس ضرب المثل پر عمل کر کے دکھایا کہ "اگر پدرنہ تواند دختر تمام کند" اگرچہ تبدیلی سے مذکورہ بالا مصرعے کا شعری توازن متاثر ہو جائے گا لیکن حقیقت کے تقاضے کے تحت لفظ لپنر کو دختر سے تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو طول دینے کے اصل ذمے دار پنڈت نہرو ہی تھے جن کا تعلق بھی کشمیر ہی سے تھا۔
چانکیّہ کے چیلے ہونے کا ناٹک پنڈت نہرو نے خوب رچایا اور کٹھ پتلی کشمیری رہنماؤں شیخ محمد عبداللہ اور بخشی غلام محمد کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچایا۔ کمزوروں پر چڑھائی کر کے ہڑپ کر جائے کا گُر بھی ریاست جونا گڑھ، مانگرول، حیدرآباد (دکن) گووا، دیو اور دمن پر جارحیت کر کے آزمایا۔ جواہر لعل نہرو اپنی خود نوشت "میری کہانی" میں رقمطراز ہیں کہ " جب تک تم کمزور ہو اپنے سے زیادہ طاقتور کے ساتھ مت اُلجھو "۔ لیکن اس کے باوجود وہ 1962 میں چین سے پنگا کیوں لے بیٹھے۔ اس سوال کا جواب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ چین کی اصل قوت کا صحیح اندازہ کرنے میں ان سے ہمالیائی غلطی سرزد وہو گئی۔ اگر امریکی قیادت کے جھانسے میں آکر اس وقت بھارت سے نمٹنے کا نادِر موقع ضایع کر کے پاکستانی حکمرانوں نے بھی بڑی فاش غلطی کی تھی جس کی سزا پاکستان اور اس کے عوام اور مظلوم کشمیریوں کو نہ جانے مزید کب تک بھگتنا پڑے گی۔
بہر حال 1962 میں چین کے خلاف جارحیت کے ارتکاب کا سودا بھارت کو بہت مہنگا پڑا اور اسے لینے کے دینے پڑ گئے۔ چین کے دلیر فوجیوں نے بھارتی بھگوڑوں کے چھکّے چھڑا دیے۔ بھارت کی را دِھالی دِلّی کے سکوتِ مرگ طاری تھا اور پر دھان منتری جواہر لعل نہرو اس صدمے کی تاب نہ لا کر بستر ِ علالت پر چلے گئے۔ اس واقعے نے نہرو کی ساکھ کو ہمیشہ کے لیے خا ک میں ملا دیا اور بھارت کے ناپاک عزائم کا پردہ بھی چاک کر دیا۔
گزشتہ ماہ مئی میں بھارت کے موجودہ پر دھان منتری نریندر مودی نے طاقت کے نشے میں چین کے ساتھ سرحد ی چھیڑ چھاڑ کر کے پھر وہی غلطی دہرا دی جو سابقہ بھارتی پر دھان منتری پنڈ ت جواہر لعل نہرو 1962 میں کر بیٹھے تھے۔ وہ تو خیر یہ ہوئی کہ بھارت کو بہت جلد اپنی اس غلطی کا احساس ہوگیا ورنہ اس کا کرِیا کرم ہو جاتا اور اس کا سارا گھمنڈ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو جاتا۔ چین بھارت سرحد لگ بھگ ساڑھے تین ہزار کلو میٹر لمبی ہیں۔ اس سرحد پر کئی علاقے دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ ہیں۔ بھارت اور چین کے سرحدی تنازعات 80 سال پرانے ہیں۔
بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسند انہ عزائم فساد کی جڑ بھی ہیں اور حل کی تلاش میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بھی چین کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس کے 90 ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے جس میں ہِما چل پردیش اور اکسائی چن بھی شامل ہے۔ بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان اسی کا رن اکثر سرحدی جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں جیسا کہ گزشتہ ماہ مئی کے آخر میں ہوئی تھی جس میں چینی فوجیوں کے سامنے بھارتی فوجی بھیگی بلّی بنے ہوئے نظر آئے۔
مودی سرکار نے پچھلے سال ماہ اگست میں لداخ کو مقبوضہ ریاست جمو ں و کشمیر سے الگ کر کے وفاقی علاقہ بنا دیا۔ اس اقدام سے اس نے لداخ پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ مودی سرکار اب وہاں عسکری تنصیبات تعمیر کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس کے علاوہ مودی سرکار لداخ کے راستے تِبّت اور سنکیانگ میں "را" کے ایجنٹ بھجواکر وہاں گڑ بڑ کراسکتی ہے۔ اسی وجہ سے چین کو لداخ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر گہری تشویش لاحق ہے۔
لداخ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پسِ پشت مکروہ عزائم سے چین بخوبی آگاہ ہے۔ چین کو گوادرکے راستے بین الاقوامی تجارت کے لیے اِس راہداری کی ضرورت ہے جو زمانہ جنگ میں اس کے کا م آسکے۔ بھار ت امریکا گٹھ جوڑ اور چین کے خلاف امریکا کی بڑھتی ہومخاصمت کا بھی چین کو خوب اندازہ ہے اور اس کے مضمرات پر بھی چین کی بڑی گہری نظر ہے۔ چین کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ مودی سرکار آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا مکروہ اور جارحانہ اعلان بھی کرچکی ہے اور اس کے عزائم بہت ناپاک اور تشویشناک ہیں۔
اب جب کہ چین کے مفادات پاکستان کے ساتھ انتہاء درجہ تک وابستہ ہوچکے ہیں اور دونوں ممالک یک جان و قالب بن گئے ہیں چین پاکستان کے خلاف بھارت کی کسی بھی حرکت پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ادھر بھارت، امریکا پریم کہانی نے روس کو رقیب رو سیاہ بناکر بھارت سے کر دیا ہے۔ رہی بات بھارت کے ساتھ امریکا کی دوستی کی تو امریکا آڑے وقت پر نہ اپنے دوستوں کے کام آیا ہے اور نہ آیندہ کام آئے گا۔ امریکا کے لیے تو بے دھڑک یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
گزشتہ ماہ مئی کے دوران بھارت اور چین کے درمیان ہو نے والی حالیہ سرحدی کشیدگی سے قبل 2017 میں بھی دونوں کے درمیان ڈوکلام کے علاقے میں ایسی ہی کشیدگی ہوگئی تھی جو 73 روز تک جاری رہنے کے بعد بڑی مشکل سے ختم ہوئی تھی۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیرمیں پُرتشدداور جار حانہ کاروائیوں اور پاکستان کو دی جانے والی گیڈر بھبکیوں کے حوالے سے چین نے بھارت کو یہ باور کرادیا ہے کہ اگر وہ بھُوٹان میں اپنے فوجی بھیجنے سے باز نہ آیا تو چین بھی پاکستان کی درخواست پر اپنی افواج مقبوضہ کشمیر میں اتارنے پر مجبور ہوجائیگا۔
اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھارت کی بدنیتی اور مخالفانہ پالیسی کی فصل اب پک کر تیار ہوگئی ہے اور اب وہ کٹنے ہی والی ہے۔ ہندوتّوا کے نام پر مظلوم کشمیری اور بھارتی مسلما نوں پر اتّیاچار کے پہاڑ ڈھانے والی بی۔ جے۔ پی کی طاقت کے نشے میں دُھت سرکار نے دنیا کے واحد ہندو پڑوسی ملک نیپال کو بھی نہیں بخشا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ اُس نے متنازعہ نیپالی علاقوں کو بھی اپنی سرحدوں میں شامل کر کے نیا جغرافیائی نقشہ شائع کر دیا۔
مودی سرکار کا خیال تھا کہ نیپال کی حکومت یہ کڑوا گھونٹ چپ چاپ برداشت کر لے گی۔ لیکن نیپال کی حکومت، حزب ِاختلاف اور نیپالی عوام کا اس کے خلاف ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ مودی سرکار چکرا کر رہ گئی۔
نیپال نے بلا تاخیر اصل نقشہ شائع کردیا جس پر مودی سرکار بوکھلا اُٹھی۔ بھارتی فوج کے سربراہ کے بیان نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ لیکن اس بیان نے نیپال کی حکومت کا حوصلہ پست کرنے کے بجائے مزید بلند کر دیا اور نیپالی حکومت، حزبِ اختلاف اور عوام کو یکجان اور متّحد کردیا۔ مودی سرکار اس صورتحا ل پر محض دانت پیس کر رہ گئی کیونکہ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ نیپال کی پیٹھ بہت مضبوط ہے اور اگر بھارت نے غلطی سے کوئی مہم جوئی کی تو اُسے اِس کا بہاری خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔