سیاسی نیب اور جے آئی ٹیز
آخر کار ہماری بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے احتساب کے بڑے کارخانے یعنی نیب کی کارکردگی اور معاملات کا نوٹس لے ہی لیا اور چیف جسٹس صاحب نے ایک ایسا حکم دے دیا جو ملک کے نظام احتساب میں انقلاب لا سکتا ہے، میں نے نیب کو ایک کارخانہ اس لئے کہا کے یہ وہ فیکٹری بن گئی ہے جہاں بے شمار خام مال اور کل پرزے روزانہ ڈھالے جاتے ہیں مگر آج تک کوئی چیز چھوٹی یا بڑی تیار ہو کر باہرنہیں آئی ہر کام لٹکتا ہی رہتا ہے مگر اب بڑی عدالت کا حکم ہے کے تین مہینوں میں 120 نئے جج لگا کر 1200 سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا جائے۔ لگتا تو نہیں کے اتنی جلدی اتنے بڑے مسئلے کو حل کر دیا جاے گا مگر کام شروع تو ہوگا، سب سے بڑی ذمہ داری تو حکومت کی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو ایک بہت ہی خوبصورت بال ملی ہے اور وہ آسانی سے چھکے پے چھکا مار سکتے ہیں یعنی ایک ایسی کمیٹی بنا دیں جس میں خود چیف جسٹس صاحب اور حکومت، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے لوگوں کو ڈال کر ججوں کی فوری بھرتی شروع کر دیں اور چند ہی مہینوں میں اپنے سب سے بڑے وعدے یعنی فوری اور سب کا احتساب پر عمل درآمد کر کے دکھائیں۔ ایسے موقعے لیڈروں اور حکومتوں کو بہت کم ہی ملتے ہیں۔ عمران خان کی سب سے بڑی شکایت ہی یہ رہی ہے کے احتساب کا عمل بہت سست اور ناکارہ ہے اور نیب ایک سیاسی واشنگ مشین بن کر رہ گئی ہے کہ جو بھی اس مشین میں جاتا ہے صاف شفاف ہو کر باہرآتا ہے اور پھر ملک اور قوم پر حکم چلاتا اور دندناتا پھرتا ہے۔
لوگ میڈیا پر اور ٹاک شوز میں لمبی لمبی کہانیاں سن کر اور چوری چکاری کے کاغذوں کے ڈھیر دیکھ دیکھ کر ناامید ہو چکے ہیں اور اگر اب بھی اس عمل میں تیزی اور شدت نہیں آئی تو پھر اچھا ہی ہوگا کہ نیب کی دکان بند کر دی جائے، چوروں اور لٹیروں کو کھلی چھٹی دے دی جائے اور عوام بھی سب کے ساتھ مل کر لوٹ مار میں شامل ہو جائیں تاکہ ا نہیں بھی کچھ حصّہ مل جائے یہاں تک کے ہر چیز کا تیا پانچا ہو جائے، مگر ایسا شاید نہیں ہوگا کیونکہ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت اور سب سے بڑے جج اور انکے ساتھ ایک منتخب حکومت اور وزیراعظم ایک مسئلہ کو سمجھ لیں اور اس پر حکم جاری کر دیں اور اس کو حل کرنے کی ٹھان لیں تو امید رکھنی چا ہئے۔
نیب کا تو اب وقت آ ہی گیا ہے کے یا تو اس کو ٹھیک کر دیا جائے یا اس ڈرامے کو بند کیا جائے مگر ساتھ ہی اب یہ جے آئی ٹیز کا ڈرامہ بھی اپنے آخری انجام کے قریب آتا جا رہا ہے۔ جب پانامہ کے سکینڈل کے لئے پہلی جے آئی ٹی بنی تو سب بہت خوش تھے۔ اس جے آئی ٹی نے کام بھی خوب کیا اور ایسی ایسی چیزیں نکال لیں کہ سب دنگ رہ گئے کچھ ڈبے تو ابھی تک کھل ہی نہیں سکے، عدالت کو بھی موقع مل گیا کہ نواز شریف کو نا اہل کر ہی دیا جائے اورجے آئی ٹی کے ڈبوں کو بند ہی رکھا جائے۔ پھر آصف زرداری کے لئے جے آئی ٹی بنی اور اس نے بھی کمال کام کیا وہ کہانیاں سامنے نظر آنے لگیں کہ پوری قوم عش عش کرنے لگی مگر بھلا ہو نیب کا اور اس میں کام کرنے والے جوانوں کا کہ آج تک کسی کیس میں فرد جرم تک نہ لگ سکی اور جناب زرداری اور باقی سب عدالتوں سے ایک ایک کرکے ضمانت لیتے رہے اور سب مزے میں ہیں، رہ گئے بیچارے رکشا والے اور رس گلّے والے جنکے نام پر کروڑوں کی ٹی ٹیزآتی رہی مگر وہ بس رس گلّے ہی بیچ کر لوگوں کا منہ میٹھا کر رہے ہیں اور بھی مزید کئی جے آئی ٹیز بنائی گئیں جیسے عزیر بلوچ کی، بلدیہ ٹاؤن کی، ماڈل ٹاؤن کی اور دیگر سب کی رپورٹس آتی گئیں اور داخل دفتر ہوتی گئیں اور کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہو رہا ہے کے ان جے آئی ٹیز میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کو جب شامل کیا جاتا ہے تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک غیر جانبدار اور حقیقی رپورٹ سامنے آئے گی اس پر عمل فوری طور پر ہوگا مگر جب عمل نہیں ہوتا تو مجھے نہیں معلوم وہ فوجی اور ایجنسی کے لوگ جو اتنی محنت کرکے مواد جمع کرتے ہیں وہ کیا سوچتے ہونگے۔ پہلا خیال تو یہی آتا ہوگا کہ انہیں استعمال کیا گیا اور مجرموں کو بچا لیا گیا اور کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ وہ سارے افسر بڑے افسردہ ہوتے ہونگے مگر بار بار استعمال ہونے کے باوجود وہ بیچارے کچھ نہیں کر سکتے کہ یہ انکے اعلیٰ افسروں کا فیصلہ ہوتا ہے مگر آخرکہاں تک تو یہ ذہنی دباؤ ضرور ان پر اثرانداز ہوتا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ آج عزیر بلوچ کی دو دو رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں، ایک وہ جو 7 افسروں نے لکھی اور دوسری 5 افسروں کے دستخط والی۔ دونوں رپورٹیں سرکاری طور پر سامنے آئی ہیں ایک صوبائی حکومت کی طرف سے اور ایک وفاقی وزیر صاحب کی کاوش سے۔ وزیر صاحب کہتے ہیں کوئی نامعلوم افراد رپورٹیں انکے گھر چھوڑ گئے، ابھی تک تو ہم سب نامعلوم افراد کو ڈھونڈ رہے تھے کے انہیں کون اٹھا کر لے گیا اور اب پتا چلا کے نامعلوم افراد بھی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں۔ وزیر صاحب کے گھر پر ضرور کوئی نہ کوئی خفیہ کیمرے تو لگے ہونگے اور اگر تفتیش کی جائے تو ہو سکتا ہے نامعلوم افراد کی شکلیں بھی سامنے آ جائیں مگر وہ نہ بھی آئیں تو یہ تو معلوم ہو گیا کہ جو رپورٹیں وزیر صاحب کے پاس ہیں ان پر صرف وفاقی محکموں کے افسروں کے دستخط ہیں اور سندھ کی حکومت والوں نے کچھ صفحات نکال کر پھر دستخط کیا اور ظاہر ہے وہی صفحے سندھ کے بڑے بڑے لیڈروں کے نام آشکار کر رہے تھے تو اب یہ بھی ایک مشکل سوال ہو گیا کہ کس کی رپورٹ صحیح ہے اور کس کی غلط۔ کیا اب دو رپورٹوں کا سچ جاننے کے لئے ایک تیسری جے آئی ٹی بنانی پڑیگی۔
اس سارے الجھے ہوئے معاملے نے بڑا سوال یہ کھڑا کر دیا ہے کہ کیا اب ملک کے سارے بڑے محکموں کے افسروں کی لکھی ہوئی رپورٹ بھی مشکوک ہے اور سیاست کا کورونا وائرس سب کی ایسی تیسی کر دیگا۔ سب سے پہلے جے آئی ٹی بنائی ہی اس لئے گئی تھی کہ نہ صوبائی لوگوں پر وفاق کا بھروسہ تھا اور نہ وفاق پر صوبائی لیڈروں کا لہذا درمیان میں اداروں کو ڈالا گیا۔ اب اداروں نے بھی اس کیچڑ کے کھیل میں آکر اپنی مٹی پلیت کر لی سو اب کون ہے جو اس لڑائی میں بیچ بچاؤ کرا سکے گا۔ چاہئے تو یہ تھا کے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی کے سربراہ خود اپنے دستخط سے ایک پریس ریلیز جاری کرتے اور جو اصلی رپورٹ تھی عوام تک پہنچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا تو اب اداروں کو بھی تنقید کا سامنا ہے اور کیا صحیح ہے اور کیا غلط کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ بہرحال یہ تو معلوم ہو گیا کہ وفاقی افسروں نے 43 صفحے کی رپورٹ لکھی اور سندھ والوں نے سات صفحے غائب کر دیئے۔ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ کی سرکار اپنے ہی بزرگوں کے کرتوت عوام کے سامنے کیسے لا سکتی ہے۔ یہ کام تو کسی اور کو ہی کرنا پڑیگا مگر جو رپورٹ کے باقی حصّے ہیں خاص کر عزیر بلوچ کے کارناموں کے بارے میں ان پر کسی کو اعتراض نہیں تو پھر عزیر بلوچ تو سزا بھگتے گا ہی مگر جیسے انگریزی میں کہتے ہیں سب نے اسے استعمال کرکے ٹرک یا بس کے سامنے پھینک دیا تو کیا وہ اکیلا ہی جان کی قربانی دے دیگا اور باقی سب عید قربان پر تکّے بوٹیاں کھا کر جشن منائیں گے۔