سیاسی جمہورے
ہمارے بڑے وکیل جناب فاروق نائیک جولائی کی پہلی تاریخ کو 73 سال کے ہو گئے یعنی پاکستان کی عمر کے برابر۔ وہ ہر مشہور کرپشن کے ملزم کے مقدمے میں وکیل صفائی ضرور ہوتے ہیں۔ مگر 30 جون کو ایک احتساب عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری کا دفاع کرتے ہوے انہوں نے توشہ خانہ کیس میں ایک بہت ہی عجیب دلیل دی انکا کہنا تھا کہ زرداری عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ AGE ADVANCED کے یعنی ضعیف ہو گئے ہیں اور اگر وہ عدالت آے تو خطرہ ہے کے انکو کورونا ہو جائے گا۔ میں نے زرداری صاحب کی سرکاری عمر ڈھونڈی تو ایوان صدر کی ویب سائٹ سے انکی تاریخ پیدائش 26 جولائی 1955ء نکلی یعنی اسی مہینے وہ صرف 65 سال کے ہو جاینگے۔ اگر جناب فاروق نائیک خود 73 سال کی عمر میں اسی عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں اور انھیں کورونا کا کوئی خطرہ نہیں تو پھر زرداری صاحب تو ان سے بہت چھوٹے ہیں۔ مگر وکیلوں کا تو یہی کام ہوتا ہے اپنے موکل کو بچانا چاہے کتنی بیوقوفی کی ہی بات کریں۔ میں نے پھر اپنے باقی سیاستدانوں کی عمر تلاش کرنا شروع کی تو مشہور ویب سائٹWIKIPEDIA کے مطابق مندرجہ ذیل سیاستدان زرداری صاحب سے عمر میں بڑے نکلے۔
ان سب کی تاریخ پیدائش بھی درج ہے : چودھری شجاعت حسین (27 جنوری 1946ئ)، چودھری پرویز الٰہی( یکم نومبر 1945) " سردار لطیف کھوسہ (25 جولائی 1946)، صدر عارف علوی (29 اگست 1949)، شیخ رشید احمد (06 نومبر 1950)، اعتزاز احسن (27 ستمبر 1945)، گورنر چودھری سرور (18 اگست 1952)، عمران خان (5 اکتوبر 1952)، نواز شریف ( 25 دسمبر 1949)، شہباز شریف (03 ستمبر 1951)، یوسف رضا گیلانی (09 جولائی 1952)، مولانا فضل الرحمن (19 جون 1953)، خواجہ محمد آصف (9 اگست 1949)، چوہدری نِثار علی خان (31 جولائی 1954)۔
ان لوگوں میں کئی نیب کے سامنے اور دوسری عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور نہ کوئی وکیل انکی عمر کی وجہ سے انکو روکتا ہے نہ ہی کوئی عدالت، تو زرداری صاحب کو کیا خاص خطرہ ہے۔ عدالت نے بھی کہا کے ایک مرتبہ تو انکو پیش ہونا ہی پڑیگا۔ اور اگر عدالت آصف زرداری کو انکی عمر کی وجہ سے استثنیٰ دے دے تو پھر تو احتساب کا پورا عمل ہی ٹھپ ہو جایگا کیونکہ جتنے بڑے بڑے لوگ نیب کے ریڈار پر ہیں وہ تو عمر گزار کر ہی اس جگہ تک آئے ہیں۔ اب بزرگ لوگوں کو معاف کر دیا جائے تو پھر تو کام آسان ہو جایگا۔ جوانی میں خوب لوٹ مار کرو، پکڑائی مت دو اور پھر جب پیٹ بھر جائے اور عمر بھی بڑھ جائے تو بزرگی کا بہانہ بنا دو۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔
امریکا میں جان سنی فرانزیس کو 1967ء میں بینک لوٹنے پر 50 سال کی سزا ہوئی اور جون 2017 میں اسے جب رہا کیا گیا تو وہ 100 سال کا تھا اور وہیل چیئر پر بٹھا کر اسکی رہائی ہوئی۔ وہ امریکا کا سب سے عمر رسیدہ قیدی تھا مگر کسی عدالت نے یہ کہ کر اسے رہا نہیں کیا کہ اسکی عمر بڑھ گئی ہے۔ ایک بینک لوٹنے پر جان سنی 100 سال کی عمر تک جیل میں رہا ہمارے ملک میں لوگ پورے کے پورے بینک ملکی خزانہ اور نہ جانے کیا کیا ہضم کر جاتے ہیں اور جب پکڑ میں آیئں تو عمر کا بہانہ بنا کر گھربیٹھ جاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کے ہمارے جمہوری سیاستدان اپنے لئے تو ہر جمہوری حق مانگتے ہیں مگر جب لوٹ مار کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو جمہوریت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر کئی دفعہ اقتدار میں آ چکے ہیں اور ہر ادارے میں اپنے لوگ جائز یا ناجائز طریقوں سے بھرتی کر گئے ہیں اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں کے انھیں مشکل سے نکالیں اور ایسا ہو بھی جاتا ہے۔
ہمارے بڑے وکیلوں نے تو عرفِ عام میں جان چھڑائی ہے۔ یہ بڑے وکیل مجھے اپنی جمہوریت کے بچے جمہورے لگتے ہیں۔ کسی نے کہا بیٹھ جا تو بیٹھ گئے، کہا کھڑا ہو جا تو کھڑے ہو گئے، کہا لیٹ جا تو لیٹ گئے نہ کوئی شرم، نہ کوئی حیا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کے اعتزاز احسن، فاروق نائیک، لطیف کھوسہ جیسے وکیل جب ہر بڑے ملزم کیلئے عدالت میں پیش ہو جاتے ہیں اور اکثر بغیر فیس کے یعنی وہ یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ یہ لیڈر چور نہیں اسلئے میں فیس نہیں لونگا مگر اسی لیڈر کو نجی محفل میں وہ ہزارہزار گالیاں دیتے ہیں اور ہر لقب سے نوازتے ہیں۔ یہ لوگ وکالت نہیں کرتے بلکہ منافقت کرتے ہیں۔ مگر پھر انکو چور سیاستدان انعام بھی بڑے بڑے عطا کرتے ہیں جیسے کوئی سینیٹ کا صدر، کوئی وزیر، کوئی گورنر، کوئی وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔ بعض تو اتنے گر جاتے ہیں کے ایان علی جیسے بدنام مجرموں کو بھی بچانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہی لوگوں نے ہماری جمہوریت کے چہرے پر ایسی کالک ملی ہے کے لوگوں کا سیاست اور جمہوریت سے ایمان ہی اٹھ رہا ہے۔
اب اگر ہماری عدالتیں بے خوف ہو کر اور بغیر ہمدردی کے انصاف کرنا شروع کر دیتیں تو نہ جانے کتنے کالے چہرے بے نقاب ہو کر سیاسی طور پر دفن ہو چکے ہوتے مگر ابھی ایسا پوری طرح ممکن نہیں ہوا ہے۔ ہماری نوجوان پود نے اب آواز اٹھانا شروع کی ہے اور خاص کر سوشل میڈیا پر تو ہر ایک کے کرتوت جلد ہی آشکارہو جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہماری عدالتیں بھی اب لوگوں کی آواز سن رہی ہیں اور سوشل میڈیا کا بھی جلد ہی نوٹس لے لیا جاتا ہے۔ اب شاید بچے جمہوروں کے سڑک پر ناچنے کے دن گنے جا چکے ہیں۔