پاکستان میں کوئی این آر او کا سوچ بھی نہیں سکتا (1)
پاکستان اور پاکستان سے باہر لوگ حیران ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کرپٹ سیاستدانوں کے بارے میں اس قدر غیر لچکدار موقف کیسے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت جاتی ہے تو جائے مگر وہ کسی چور ڈاکو کو این آر او نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم کا یہ موقف اس پختہ ارادے اور عزم پر مبنی ہے کہ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ پالیسی کیوں اپنائی ہے کہ اگر بلا امتیاز اور بے لاگ احتساب نہ کیا گیا تو پاکستان اندھے کنویں میں گر جائے گا اور ہر چیز تباہ ہو جائے گی۔ اس تباہی کی وجہ ایف اے ٹی ایف کو قرار دیا جا سکتا ہے جو آج کل ہر طرف موضوع بحث ہے۔
پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر کس حد تک عملدرآمد کیا اس کا جائزہ لینے کی ڈیڈ لائن اکتوبر 2020ء ہے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھا جائے یا پھربلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ پاکستان کے دشمن، جیسا کہ بھارت، پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
پاکستانی حکام ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ترجمان مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے بلیک لسٹ سے بچنے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں مگر حقائق کچھ اور ہی چغلی کھا رہے ہیں۔ کوئی بھی یہ بتانے کی ہمت نہیں جتا پا رہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی سوچ کیا ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے اور پاکستان نے اب تک کون سے اقدامات کئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے جو تحقیقات کی ہیں اور جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ اعصاب شکن ہیں۔
محض چند لوگ جو ان معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں وہی حقیقت سے باخبر ہیں مگر حقائق قوم کو بتانے سے خوف زدہ ہیں۔ ان کا خوف خلاف حقیقت بھی نہیں! سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس قوم کو بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ اس لئے میڈیا پراپیگنڈا کو رد کرنے کے لئے سیاسی انداز میں معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حقائق نہایت خوفناک ہیں۔ اس حوالے سے سچائی اکتوبر 2019ء میں میوچل ایویلیوایشن رپورٹ (MER)، جو اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے حوالے سے ہے، میں بیان کی گئی ہے۔
ایف اے ٹی ایف میں 41ممالک کے ممبران ہیں اور پاکستان کے معاملات کا 13فنانشل، لیگل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین نے تجزیہ کیا۔ ان ماہرین میں مالدیپ، انڈونیشیا، چین، برطانیہ، امریکہ، ترکی، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور آئی ایم ایف کے ماہرین شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی ملک یا ادارہ بھی ایسا نہیں جس پر پاکستان اپنا دبائو یا اثرورسوخ استعمال کر سکے۔
ایف اے ٹی ایف کی جانچ حقائق پر مبنی اور 2012ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقرر کردہ اہداف کی روشنی میں کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے لئے ڈیٹا پاکستان نے فراہم کیا تھا اور ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے پاکستان آ کر خود بھی معلومات حاصل کی ہیں۔ ایم ای آر نے اپنی رپورٹ میں خوفناک انکشافات کئے ہیں کہ پاکستان کے نظام میں کہاں کہاں خامیاں ہیں۔ پاکستان میں قانون شکنی، عزم کی کمی اور باہمی رابطوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کو دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو رپورٹ کے انکشافات کا بخوبی ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم این آر او کے بارے میں اس قدر سخت موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے عمران خان کے لئے مصالحت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ پاکستان کے عسکری ادارے اور عدالتیں بھی رتی بھر نرمی برتنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ٹرائیکا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے سدباب کے لئے عسکری ادارے یکسو ہیں اور ایف اے ٹی ایف کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کی جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
پاکستان نے 70ہزار جانوں اور بے پناہ مالی نقصان برداشت کر کے دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن منی لانڈرنگ، ایم ای آر کی رپورٹ کے مطابق سول حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور سول حکومتوں نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری احسن انداز میں نہیں نبھائی جس کے نتائج حکومت سیاسی نظام اور خود پاکستان کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیم نے پاکستان کے حالات کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے اور سسٹم میں موجود خامیوں کوتاہیوں کی تفصیل سے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے، عدلیہ اور سیاسی نظام میں کہاں کہاں خامیاں ہیں اور کس طرح سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفاد کے لئے ملکی سسٹم کو تباہ کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اجتماعی طور پر نجی اور سرکاری شعبہ جات میں اس احساس کا فقدان ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کتنا بڑا قومی نقصان ہے اور اس کا اثر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کس طرح پڑتا ہے۔ (جاری ہے)