Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Shaheen Sehbai
  3. Molana Ke Liye Aik Umeed Ka Chiragh

Molana Ke Liye Aik Umeed Ka Chiragh

مولانا کے لئے ایک امید کا چراغ

دھرنا ہونا تھا اوردھرنا ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ختم کس طرح کیا جائے۔ جو بھی درمیانی راستہ نکالا جائے گا یا فیس سیونگ دی جائے گی اس میں کچھ چیزیں تو یقینا شامل نہیں ہونگی: 1۔ وزیر اعظم کا استعفیٰ نہیں ہو گا۔ 2۔ نئے انتخاب فوری طور پر نہیں ہو نگے۔ 3۔ دھرنے والوں کو داخلی انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 4۔ فوج یا کوئی اور عسکری ادارہ اس سیاسی سرکس میں شامل نہیں ہو گا۔ 5۔ دھرنے کی وجہ سے فوج یا کسی عسکری دفاعی ادارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور یہ بات سراسر غلط ثابت ہو گئی کہ دھرنے کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ تھا یا ہے۔

آج کے حالات کے مطابق یعنی جس دن یہ کالم لکھا جا رہا ہے، مولانا فضل الرحمن صاحب اپنے کنٹینر پر عملاً اکیلے کھڑے ہیں اور ایک گمشدہ اور بھٹکی ہوئی شخصیت یعنی جناب محمود خان اچکزئی ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں کیونکہ ان کو اپنی گائے کو باندھنے کے لئے کوئی اور کھونٹا نہیں مل رہا۔ ایک انتہائی دلچسپ موقع پر ٹی وی نظر آیا، جب محمود خان نے ببانگ دہل کہا کہ انتخاب میں دھاندلی کی گئی اور مولانا کے بائیں ہاتھ کے قریب جمعیت کے وہ لیڈر کھڑے تھے جنہوں نے محمود خان کو الیکشن میں شکست دی تھی۔ دونوں تالیاں بجا رہے تھے اور دھرنا آگے بڑھ رہا تھا۔ مگر بدھ کی رات کے اعلان کے بعد کہ دھرنا سیرت النبیؐ کانفرنس میں بدل جائے گا یہ تو طے ہو گیا کہ اتوار تک تو لوگ پشاور موڑ پر بیٹھیں گے جبکہ مولانا خود کہہ چکے ہیں کہ ڈی چوک جانے کا کوئی ارادہ نہیں تو پھر ساری کہانی چودھری برادران کے گرد گھومے گی اور دیکھنا ہے وہ کیا خرگوش نکالنے ہیں اپنے سر کی پگڑی سے۔

وزیر اعظم تو بالکل مطمئن اور ٹھنڈے بیٹھے ہیں اور کرتار پور کی تیاریوں میں مشغول ہیں لیکن اس دھرنے سے کون کون کس طرح فائدے لے چکا ہے وہ قابل غور ہے۔ مولانا کو تو ابھی تک کچھ نہیں ملا، سوائے دو چار لاکھ یا دو چار کروڑ اگر انہوں نے خرچے سے بچا کر اپنے اور پارٹی کے لئے کسی جگہ رکھ چھوڑے ہوں۔ مگر جو لوگ دھرنے میں نہیں آئے وہ اپنی قیمت لے اڑے مگر وہ بھی صرف وقتی فائدے کے لئے۔ مثلاً شریف خاندان کو اتنی سہولتیں مل گئیں کہ شاید خود عمران خان بھی پریشان ہوں۔ ان کے ایک قریبی دوست نے ایک تصویر بھیجی جس میں قوم کی تین بیٹیاں بیٹھی ہیں، ایک تصویر ایک غریب خاندان کی دو بہنوں کی ہے، عمریں 14اور 7سال کے قریب، ان کا جرم کچھ سو روپے کی کپاس کی چوری تھا اور دونوں بچیوں کے پیروں میں بھاری بیڑیاں اور ہاتھوں میں زنجیریں ہیں۔ دوسری تصویر مریم نواز کی ہے اور نیچے لکھا ہے جرم شریک مجرم 300 بلین روپے۔ فوراً رہائی اور تصویر میں خاتون کے گلے میں ڈھیروں پھولوں کے ہار۔ تو یہ تصویر وزیر اعظم ہائوس میں کافی مقبولیت پا رہی ہے، اس سے اندازہ لگا لیں کہ دھرنے نے کس کس کو کہاں کہاں فائدہ پہنچایا ہے۔ اب سنا ہے بجائے مریض ICU میں داخل ہو خود ICU مریض کے گھر داخل ہو چکا ہے۔ دنیا کے لوگ بھی پاکستانی قوم اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر حیران پریشان ہیں کہ کتنی آسانی اور ڈھٹائی کے ساتھ قوم کے خود ساختہ لیڈر سب کو بے وقوف بناتے ہیں اور ہم سب ہنس کر ان کی ہر بات مان کر دوبارہ اپنے کاموں میں اسی پرانی تنخواہ پر نوکری شروع کر دیتے ہیں۔ تو اگر دھرنا نہ ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ اس خاندان کو جس کے بارے میں ملک کے وزیر اعظم کئی دفعہ کہہ چکے کہ چوروں کو نہیں چھوڑوں گا آج ان کے قریبی ساتھی اسی خاندان کی چشم و چراغ خاتون کی تصویریں واٹس ایپ کر رہے ہیں انتہائی بے بسی کے ساتھ۔

میں پہلے دو دفعہ لکھ چکا کہ عمران خان کو دھرنے کی کوئی فکر نہیں، اس لئے کہ اس کا بندوبست وہی لوگ ٹھیک طریقے سے کر لیں گے جنہوں نے اس طرح کے کئی بحرانوں کا پہلے بھی بندوبست کیا تھا اور وہ پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں تو ہوا وہی کہ شروع میں جو گرج چمک دھمک تھی وہ دو تین سرکاری بیان جاری ہونے کے بعد آہ وبکا میں تبدیل ہو گئی یہاں تک کہ خود مولانا ایک تقریر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کہ میڈم نورجہاں کا مشہور لاہوری گانا "سانوں نہر والے پل تے بلا کے سونا ماہی کتھے رہ گیا" مولانا کے کئی سونے ماہی ایک ایک کر کے اپنا اپنا حلوے کا حصہ لے کر دور سے اخلاقی اور سفارتی اور سیاسی امداد کر رہے ہیں اور میدان میں کوئی آنے کو تیار نہیں۔ ہور چوپو۔

پہلے تو یہ خیال تھا کہ اگر واقعی مولانا 15 لاکھ نہ سہی ایک دو لاکھ لوگ بھی لے آئے اور اسلام آباد میں داخل ہو گئے تو یہ سب لوگ فوراً چھلانگ لگا کر میدان میں آکرشامل باجہ ہو جائیں گے مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ "تو نہیں اور تیری جستجو بھی نہیں " یہ امیتابھ بچن کے ایک مشہور گانے کا حصہ ہے مگر بالکل دھرنے پر فٹ آتا ہے۔

تو پہلے شریف خاندان مشرف باایمان ہو کر خود پیدل چل کر اور ایک عدد ICU کو بھی گھر منگوا کر ایک طرف ہوئے اور اب زرداری خاندان کی باری ہے اگر یہ دھرنا کچھ دن اور چلا اور اتوار تک تو چل ہی رہا ہے۔ تو بلاول اور زرداری اور فریال صاحب اور سارے چمچے کڑچھے بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیں گے۔ ان مسائل کو حل کرنے والوں کو داد دینی چاہیے کہ سب کچھ ہو بھی رہا ہے اور لوگوں کو اس کے نتائج بھی مل رہے ہیں لیکن سامنے کوئی نہیں اور ہر کام آئین، قانون، عدالتوں اور اداروں کے جھنڈے اور ڈنڈے کے نیچے انجام پا رہا ہے۔

عمران خان کو پہلے شاید یہ بتایا گیا تھا کہ ایک دو دن میں مولانا بس روانہ ہونے ہی والے ہیں لیکن پھر کہیں بریک لگ گئے اور اچانک چودھری شجاعت اور ان کے بھائی میدان میں اترے اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا۔ اب وزیر اعظم شاید یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ مولانا خود ایک قطرہ قطرہ آتی ہوئی موت کی طرف رواں دواں ہیں اور ہمیشہ کے لئے سیاسی جہاں سے کوچ کرنے والے ہیں۔ شاید یہ ان کی حالیہ بے بسی کی بھی علامت ہو لیکن یہ بات تو پکی ہو گئی کہ جیسے ہی دھرنا ختم ہو گا اور ایک سکون کی فضا قائم ہو گی۔ چودھری برادران اس کیک کا ایک بڑا حصہ مانگیں گے اور ان کے لوگوں نے تو یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ اگلے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک مضبوط حاکم ہونگے تجربہ بھی رکھتے ہیں اور نون لیگ کے کئی لوگ ان کے ساتھ آ کر ایک ایسی حکومت بنائیں گے جو پنجاب کو سنبھال لے گی۔ عمران خان صاحب تو واقعی چودھری برادران کے بڑے شکر گزار ہو گے کیونکہ انہوں نے دھرنے سے جان چھڑوائی ہو گی۔ ویسے بھی وزیر اعظم کے سارے دعوے اور منصوبے جن میں کابینہ میں بڑی تبدیلی اور پنجاب میں ردوبدل شامل تھا ابھی تک ہوا میں لٹکے ہوئے ہیں۔ دھرنا ختم ہو گا تو اس پٹڑی پر تیزی سے ٹرین چلے گی۔

دھرنے کا کیا حل نکل سکتا ہے؟ ایک تجویزجو چل رہی ہے اور شاید کنارے بھی لے جائے وہ یہ ایک عدالتی دھاندلی کمیشن بنایا جائے اور مولانا فضل الرحمن کی نشست پر دوبارہ الیکشن فوری طور پر کروا دیا جائے تاکہ مولانا کو اس اسمبلی میں آنے کا موقع مل سکے اگر پھر بھی وہ نہ جیتے تو انکا اللہ حافظ۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.

 

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar