کیا واقعی خطرہ بڑھ گیا ہے
دوست زاہد حسین ایک منجھے ہوئے اور معاملات کو سمجھنے والے صحافی ہیں۔ اپنے بدھ کے مضمون جو ڈان میں چھپا حکومت اور ملک کی موجودہ صورتحال کو "خطرے کی گھنٹیاں " کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ بڑی جامع تصویر کشی کی ہے اور اکثر باتیں بالکل ٹھیک ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ آج کل کا بحران نااہلی اور تکبر کا ایک مجموعہ ہے مگر یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ صرف بری حکومت ہی نہیں یہ بوسیدگی اور سڑن ہر طرف پھیلی ہوئی ہے فرماتے ہیں حکومت ایک ایسے سمندری جہاز کی طرح ہے جو قابو سے باہر ہے اور پہاڑ یا چٹان سے ٹکرانے والا ہے۔ لیکن اس جہاز کے کپتان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کا اعتقاد انہونی طاقتوں پر غیر متزلزل ہے جو کہ خوفناک ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ ان کو لے کر آئے تھے وہ بھی سخت پریشان ہیں کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ "معرکہ عمران خان" اتنی جلدی بیٹھ جائے گا حالانکہ ان کو زیادہ امید نہیں تھی کہ یہ کامیاب ہو گا اب یہ لوگ بھی ایک ایسی جگہ پھنس گئے ہیں کہ وہاں سے نکلنا مشکل ہو رہاہے۔ مگر اب کریں کیا؟ عمران خان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ خان صاحب کے پاس تجربہ تو تھا نہیں مگر ان کی ناکامی یہ رہی کہ وہ ہمیشہ ماضی میں ہی رہے اور موجودہ دور کے چیلنج کو سمجھ نہیں سکے۔ ریاست چلانے کے ہنر سے وہ دور ہی رہے۔ اس لئے حکومت ایک بحران سے دوسرے بحران تک لڑھکتی رہی اور اب اپنی پارٹی اور حلیفوں میں بھی جھگڑے شروع ہو گئے ہیں اور پنجاب اور کے پی کے میں واقعات اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حالات کو قابو میں رکھنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے اور صرف لوگوں کو کھانا کھلانے اور بے گھر لوگوں کو محلات میں سلانے سے معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ ان کے علاوہ بھی وہ اور بہت کچھ لکھتے ہیں اور خاص بات یہ کہ جو لوگ انہیں حکومت میں ایک تجربہ کرنے لائے تھے وہ ابھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا تجربہ فیل ہو جائے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو خود ان کے اوپر بھی حرف آئے گا کہ کس قسم کے کھیل وہ ملک کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں اور ان حالات میں کوئی نیا تجربہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
زاہد حسین ایک دیانتدار اور پروفیشنل صحافی ہیں کئی غیر ملکی اخبارات میں بھی لکھتے ہیں اور کتابیں بھی تحریر کر چکے ان کے خیالات اکثر جمہوری قوتوں کے حق میں رہتے ہیں اور فوج کا دخل وہ پسند نہیں کرتے لیکن ان کے بارے میں کوئی کس طرح لفافے لینے یا بددیانتی کا الزام نہیں لگا سکتا تو یہ سب لکھ کر ان کا خیال ہے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے اور عمران خان نے کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ اپنے خیالات یا طور طریقہ بدلنے کو تیار ہیں۔ ایک ہٹ دھرمی کی فضا ہے اور وہ بدلنے والی نہیں۔ کچھ باتیں جو زاہد نے لکھیں وہ ٹھیک اس طرح ہیں کہ ان کے خیال میں عمران خان کے سپانسر اب پورے جوش اورجذبے کے ساتھ ان کے ساتھ نہیں ہیں اور کافی ناامید سے نظر آتے ہیں۔ یہ بات میں بھی وثوق کے ساتھ لکھ سکتا ہوں کہ پچھلے سال نومبر میں جب آرمی چیف کو مزید تین سال دینے کا مسئلہ تھا یہی باتیں زور شور سے ہو رہی تھیں اور اس دوران میں نے ایک موقع پر خان صاحب سے پوچھا تھا اور ان کا خیال تھا کچھ لوگ اب مافیاز کے خلاف اتنی تندہی سے کام نہیں کر رہے جتنا پہلے کر رہے تھے۔ بات آئی گئی ہوئی اور مسئلہ بھی حل ہو گیا اور کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اب عمران خان کی اس طرح حمایت نہیں ہو گی جیسے پہلے۔ اسی تاثر کی بنیاد پر ن لیگ اور زرداری اور دوسرے لوگوں کے مقدمات میں انہیں چھوٹ ملنے لگی اور ایسا لگنے لگا کہ کسی نے اگر کوئی بھاری ہاتھ رکھا ہوا تھا وہ ہٹ گیا ہے اور عدالتوں کو بھی یہ پیغام مل گیا ہے کہ اب وہ آزادی سے فیصلے کر سکتے ہیں اور نیب بھی حکومت کی لائن پر چلنے کی پابند ہیں۔ تو نیب نے بھی اشارے دیے کہ وقت بدلنے والا ہے یا بدل گیا ہے۔
سب کچھ ہو گیا اور معاملات آرام سے اور رات کی تنہائیوں میں حل کر لئے گئے اور ایک تاثر یہ بن گیا کہ اب سیاست کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور حکومت اور پارٹیاں اپنے اختلافات خودحل کریں مگر یہ بھی تاثر بن گیا کہ عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہے اور چاہے مولانا فضل الرحمن جتنے لانگ مارچ اور دھرنے دے لیں، یہ اسمبلی اور یہ نظام اسی طرح چلے گا۔ اب بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ازخود اعلان کر دیا ہے کہ وہ کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتے اور کیونکہ عمران خان کی حکومت خود ہی ناکام ہو رہی ہے۔ اس لئے وہ اسے کے حال پر چھوڑتے ہیں اور اسمبلی میں صرف گالی گلوچ ہی کریں گے اور حکومت کو کوئی ٹھوس کام نہیں کرنے دینگے۔
اس ساری الجھی ہوئی اور بے یقینی کی کیفیت میں حکومت کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ میڈیا کو کیسے قابو کیا جائے اور ہر چیز کو منفی پیش کرنے کا رجحان کیسے روکا جائے۔ یہاں عمران خان اور ان کے ساتھی زیادہ ناکام ہوئے ہیں اور باقی ساری لڑائیاں تو لڑی ہی تھیں میڈیا سے بڑا پنگا اب مہنگا پڑ رہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ میڈیا کے پرانی حکومتوں میں جو اللے تللے لگے ہوئے تھے وہ شرمناک تھے اور انہیں ٹھیک کرنا ضروری تھا مگر ہر ایک کے ساتھ ایک ہی وقت میں چومکھی لڑائی اور وہ بھی ایک ایسی حکومت کے لئے جو دوسروں پر زیادہ دارو مدار رکھتی ہو ایک غلط پالیسی تھی۔ اب تو نقصان ہو گیا اور میڈیا نے جو گند ڈالنا تھا وہ ڈال دیا اور اس کی ایک مثال وہ بڑا ہوّا کھڑاکرنا تھا جیسے نواز شریف بس چند گھنٹوں کے ہی مہمان تھے اور ہر چند منٹ بعد ان کی صحت کے بارے میں ایک بریکنگ نیوز آتی تھی اور سب گھبرا گئے اور انہیں باہر روانہ کر دیا۔ مگر اب سوچیں تو وہ سب ڈھونگ میڈیااور ن لیگ کا گٹھ جوڑ ہی تھا ورنہ جیسے ہی نواز شریف کا جہاز پاکستان کی سرزمین سے اڑا وہ بالکل فٹ ہو گئے اور لندن جانے سے پہلے قطر میں شاہی مہمان نوازی کا بھی مزا لیا۔ تو اب عمران خان میڈیا کو کیسے ہینڈل کریں۔ اوپر سے سوشل میڈیا کا جن بھی سر اٹھانے لگا کیونکہ جو بڑے بڑے میڈیا والے لاکھوں میں کھیل رہے تھے وہ بیکار ہو گئے اور یو ٹیوب کی طرف چل پڑے۔ وہاں کچھ نہ کچھ ڈالر تو مل جائیں گے مگر آزادی زیادہ مل رہی ہے۔ تو اب خان صاحب کی حکومت سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کا ارادہ بنا رہی ہے جو میرے خیال میں بالکل ناکام رہے گا کیونکہ نہ پاکستان مقبوضہ کشمیر ہے جہاں انٹرنیٹ بند کر دیا جائے اور نہ یہ چین ہے۔ یہاں ہر وہ آزادی جس کا اثر مغربی ملکوں کی کمپنیوں پر ہو جیسے فیس بک یا ٹویٹر یا یو ٹیوب یہ بند نہیں کی جا سکتیں یا آپ ان سے جرمانہ یا رجسٹریشن فیس نہیں لے سکتے تو یہ تو کام چلنے والا نہیں۔ ہاں دو میں سے ایک فیصلہ عمران خان کو کرنا ہو گا۔ یا تو میڈیا کو منا لیں اور یہ زیادہ آسان ہے یا اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتا کر لیں کہ جو اچھے لوگ ہیں ان کو قبول کر لیں اور چوروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں مگر اب اس کا وقت بھی تقریباً گزر ہی گیا۔ اب تیسرا راستہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اصلی ایجنڈے پر واپس آئیں اپنی پارٹی کی صفائی کریں اور چوروں کو پکڑنے میں کوئی رعایت نہ کریں۔ آگے جو ہو سو ہو۔
میں نے خان صاحب سے پوچھا کہ آپ کن لائنوں پر سوچ رہے ہیں اور کیا یہ بات اب بھی درست ہے کہ پنڈی ان کے ساتھ اب جپھی ڈال کر نہیں کھڑا۔ خان صاحب کے ایک قریبی نے جواب دیا کہ میڈیا والے اب بھی ٹھیک نہیں ہو رہے۔ ادارے ان کے ساتھ ایک چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ IMF والے بھی OK ہیں اور خان صاحب کچھ تبدیلیاں ضرور کریں گے چاہے زیادہ بڑی نہ سہی۔
جواب تو یہی آنا تھا مگر ابھی مجھے لگتا ہے چیلنج ذرا سخت ہیں اور مدد نہ ملی تو مسائل بڑھ سکتے ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں کیونکہ چوروں کو دوبارہ موقع دینا خودکشی ہی ہو گی یہ سب جانتے ہیں۔