اندر کے لوگ
جولائی کی 14 تاریخ کو امریکا میں ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آئی اور پہلے ہی دن دس لاکھ کاپیاں بک گئیں اور سارے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یہ کتاب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی بھتیجی میری ٹرمپ نے لکھی ہے جو خود ایک دماغی امراض کی ڈاکٹر ہیں اور کئی برس سے صدر ٹرمپ سے اپنے حقوق لینے کے لئے لڑائی کر رہی ہیں۔ اس نے پہلے بھی کتاب لکھنے کے بارے میں سوچا مگر پھر ارادہ ملتوی کر دیا یہ سوچ کر کہ اس وقت امریکی لوگ ٹرمپ کا ہر گناہ معاف کرنے کو تیار ہیں اور انکی بات کوئی نہیں سنے گا۔ چار سال بعد جب دوبارہ الیکشن کا وقت آیا تو انہوں نے نیو یارک ٹائمز کو چالیس ہزار کاغذات اور اپنے خاندان کی دستاویزات تھما دیں۔ اسمیں بیشمار صدر ٹرمپ کے بزنس اور مختلف طریقے سے پیسے بچانے کے فراڈ کے ثبوت تھے، پھر انہوں نے کتاب لکھنی شروع کی اور صدر ٹرمپ کے وکیلوں نے ہر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کے کسی طرح کتاب کو روکا جا سکے مگر یہ ہو نہ سکا اور وہ کتاب مارکیٹ میں آ گئی اور پہلے دن ہی ریکارڈ بنا دیا۔
صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس والے ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کتاب کو لوگ سیریس نہ لیں اور میری ٹرمپ کی بات نہ سنیں مگر اب 2016 نہیں ہے اور فضا بدل رہی ہے۔ ٹرمپ کے مقابل ڈیموکریٹ پارٹی کے سابق نائب صدر جوبائڈن ٹرمپ سے 9 پوائنٹ ریس میں آگے ہیں اور اکثر ریاستوں میں جہاں ریپبلکن پارٹی مضبوط ہے وہ ٹرمپ کو یا تو ہرا رہے ہیں یا سخت مقابلہ ہے، اور ایسے وقت خود صدر ٹرمپ کے گھر کی ایک فرد اپنے سارے پوشیدہ راز لے کر دنیا کے سامنے آ گئی ہیں اور انکو بہت سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کتاب کا نام Too Much and Never Enough: How My Family Created the Worlds Most Dangerous Man ہے اور اسکی قیمت 16.99 پائونڈ ہے۔
پہلے ہی دن "میری ٹرمپ " پاکستانی روپے دو ارب چالیس کروڑ کما چکی ہیں اور انکے سارے مالی مسائل حل ہو گئے ہیں اور ابھی یہ رقم دگنی اور تگنی ہو سکتی ہے۔ ابھی کچھ ہفتے ہی پہلے صدر ٹرمپ کے اہم مشیر رچرڈ بولٹن بھی ایک کتاب لکھ چکے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے اندر کی باتیں بتا کر لاکھوں ڈالر کما لئے ہیں مگر میری ٹرمپ کی بات اور ہے۔ وہ کہتی ہیں ٹرمپ کے سارے خاندان میں بزنس کرنے کے سارے غلط طریقے استمال ہوتے تھے اور یہ لوگ یہودیوں اور کالے لوگوں کو کھلی گالیاں دیتے تھے۔ میری ٹرمپ آجکل سارے ٹی وی چینلز پر آ رہی ہیں اور زور زور سے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ دوسری بار صدر بن گئے تو امریکا کا بیڑا ہی غرق کر دیں گے، وہ ٹرمپ کا فوری استفیٰ بھی مانگ رہی ہیں۔
یہ سب باتیں ٹرمپ کے الیکشن پر گہرے اثر ڈال سکتی ہیں مگر یہ ساری کہانی سنانے کے بعد میری نظر جب پاکستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر پڑتی ہے تو اکثر سوچتا ہوں ہمارے حکمران خاندانوں میں کبھی کوئی اندر کا آدمی اتنی ہمّت نہیں کرتا کے ملک اور قوم کے لئے چوری اور لوٹ مار کی سچی داستانیں کسی کتاب میں لکھ دے۔ ہمارے کئی حکمران جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل مشرّف تک اپنی غیر آئینی اور غیر قانونی حکومتوں کی تعریفیں تو لکھ دیتے ہیں لیکن کسی میں کبھی ہمّت نہیں ہوئی کے اصلی کہانی قوم کو سنا سکے اور صحیح وقت پر بتا سکے۔
فرض کیجئے نواز شریف یا آصف زرداری کے خاندان میں سے کوئی فرد ہمّت کرے اور کسی محفوظ جگہ یا ملک میں بیٹھ کر سارے راز افشا کرنے لگے تو کیا ہوگا۔ بھٹو خاندان کی ایک بیٹی فاطمہ بھٹو نے کچھ کوشش کی مگر پوری بات نہیں بتا سکیں اور کئی سال پاکستان سے دور دیار غیر میں ہی رہنا پڑا کیونکہ آصف زرداری سے خطرہ تھا کہ وہ انکو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ اب جو جو داستانیں پانامہ کیس میں یا زرداری کے ٹی ٹی کے کیس میں سامنے آئی ہیں اگر کوئی گھر کا فرد ہمّت کرکے بتا دیتا تو آج قوم اسکو سر پر بٹھا لیتی۔ اسکی بنیادی وجہ ہمارے ملک کا نظام انصاف ہے۔ نظام عدل اتنا کمزور ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی ہمّت نہیں کرتا کیونکہ اسے بچانے والا کوئی نہیں۔ یا ہماری ریاست میں اتنی جرات نہیں کہ سچ سن سکے اور سچ کہنے والوں کی حفاظت کر سکے کیونکہ اکثر اوقات ریاست بھی کئی گھناونے کھیل در پردہ کھیل رہی ہوتی ہے۔
کیسے کیسے سانحے ہمارے سامنے ہو چکے ہیں، زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں سے لے کر بینظیر کے قتل اور اسکے بعد کئی دوسرے لوگوں کے قتل سب ایسے راز ہیں جو شاید لوگوں کے سینوں میں ہی دفن رہینگے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد انکے بچوں یعنی بلاول، بختاور اور آصفہ کے پاس موقع تھا کے وہ سچ ڈھونڈ سکتے یا بتا سکتے اگر ریاست اور عدالت انکی حفاظت کا انتظام کر سکتیں۔ بلاول تو ہمیشہ اپنی والدہ کے ہی پاس رہے اور ساری تعلیم و تربیت انہوں نے ہی کی مگر جب وہ والد کی زیر نگرانی آئے اورجب انکو دولت، شاہی محلّات، ہیرے جواہرات کے انبار اور جنت کی حوریں اسی دنیا میں نظر آنے لگیں تو وہ بھی انکے ہی رنگ میں رنگ دیے گئے اور اب انکا ایسے دفاع کرتے ہیں جیسے ہر چیز حلال ہے اور کبھی کسی نے چوری کا الزام تک نہیں لگایا۔ مگر ایک نہ ایک دن تو بلاول کو یہ بتانا ہی پڑیگا کہ انکے ورثے میں جو اربوں کھربوں کی جائیداد اور رقوم ملی ہیں وہ کیسے اور کہاں سے حاصل کی گیئں۔
آج اگر بلاول یا بختاور یا مریم نواز میری ٹرمپ کی طرح سچ بولنے اور سچ لکھنے پر تیار ہو جایئں تو پاکستان کا سیاسی نقشہ ہی بدل جائے مگر ابھی شاید کئی سال ہمارا نظام اتنے بڑے سچ کے لئے تیار نہ ہواور اتنا سچ بولنے والے لوگ کیسے اور کس خاندان میں پیدا ہونگے۔