سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
وزیر اعظم عمران خان کے امریکی ٹی وی ایچ بی او کو اپنے ایک انٹرویو کے الفاظ"قطعی نہیں " بین الاقوامی سیاست میں نہ صرف طویل عرصے تک گونجتے رہیں گے بلکہ عالمی برادری کو واضح پیغام بھی ہیں ان کے دو الفاظ ریئل پولیٹک، برلن ایئر لیفٹ اور کینن ٹلگرام پاک افغان تعلقات کے مستقبل کے لئے فیصلہ کن ہوں گے اور امریکہ کی خطے کے حوالے سے ممکنہ حکمت عملی اور فیصلہ سازی کے پرانے اطوار میں بھی ممکن ہے تبدیلی آئے گی کہ امن کو ایک موقعہ دینا چاہیے یا پھر خطے کو ایک بار تشدد اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا جائے۔ بہرحال اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی قطعی نہیں کی توہین پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں اور کس طرح افغان مجاہدین گروپ قومی ہم آہنگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس سے پہلے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد خطے میں تشدد کی لہر خون خرابے کا آغاز بنی اور انارکی پھیل گئی تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے بہتری کی امید اور بدترین کے لئے تیار رہنے کی پالیسی کے تحت امن کو موقع دینے کا اصرار کیا ہے۔ امریکہ پاکستان میں امریکی اڈوں کا جواز داعش اور دولت اسلامیہ کی خطے میں موجودگی اور ان کا خاتمہ بتاتا ہے اگر امریکہ کا یہ موقف درست ہے تو پھر ایک سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں 20سال تک کیا کرتا رہا ہے؟ پاکستان اس موقف کو تسلیم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ماضی میں جب پاکستان نے امریکہ کو اڈے فراہم کئے تھے تو یہ اڈے نہ صرف پاکستان میں کارروائیوں کے لئے استعمال ہوئے بلکہ افغان جنگ کو پاکستان میں بھی کھینچ لائے۔
امریکی صدر بائیڈن کے یورپی یونین کے دورے کا مقصد نیٹو کے ساتھ امریکی تعلقات کو ایک نئی جہت دینا تھا۔ جیسا کہ امریکہ نے 9/11کے بعد کیا تھا۔ اس بار پوٹن سے ملاقات کے دوران بائیڈن کا رویہ بھی مختلف تھا اس کی وجہ ماضی میں امریکہ کے یورپی یونین سے تعلقات میں سردمہری تھی۔ بائیڈن کی پوٹن سے ملاقات نے بھی میری امریکہ کے مغرب پر نفسیاتی غلبے کی سوچ کو بھی حیرت زدہ کر دیا۔ اس ملاقات نے ریڈ انڈیئنز، مورمونز، غلاموں اور چین کے ورکرز کے خلاف روا رکھے گئے ظالمانہ رویہ کی یاد تازہ کر دی جنہوں نے بین البراعظمی دہلی لائن بدترین حالات میں بچھائی تھی۔ امریکہ کے اس مشکل وقت میں ترکی امریکہ کی معاونت کے لئے آمادہ ہے لیکن ترکی بھی پاکستان کی مدد کے بغیر کچھ زیادہ نہیں کر پائے گا، جیسا کہ کسی نے کیا خوب بات کی ہے کہ ترکی کو امریکیوں کی مدد کے عوض ڈالر ملتے ہیں اور پاکستان بدلے میں الزامات شاید سی آئی اے اور جے ایس او سی کے ذریعے منتخب پرتشدد کارروائیوں کے استعمال کے علاوہ معاشی تبدیلی بھی نظر آنا شروع ہو سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ تھاڈ اور پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام سے باہر ہے۔ امریکہ اسرائیل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحاد کا بہت چرچہ رہا مگر بظاہر اس میں پیش رفت کی کوششوں میں بھی تعطل آ چکا ہے۔ امریکہ کی ناکامیوں کی فہرست میں عراق، لیبیا، شام اور یمن کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب کویت اور یو اے ای دفاعی صلاحیت کو سفارتکاری کے ذریعے موثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کو مشرق وسطیٰ میں متحرک دھڑوں کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے قائل کر لیا جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لانے القاعدہ کو ختم کرنے اور انسانی حقوق اور انسانیت کو بچانے کے نام پر طویل جنگیں ختم ہو رہی ہیں اور نئی صدی کے امریکی منصوبے کی تکمیل کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان میں سپورٹ کرنے کے لئے پرعزم ہیں تو پھر ان امریکی اڈوں کو، جہاں سے افغان فوج کو تقویت اور مقابلہ کرنے کی طاقت مل رہی تھی ان کو خالی کیوں کیا جا رہا ہے۔ امریکہ خود جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے باجود 20سال تک جس جنگ کو نہیں جیت سکا اس کو جنگی حربوں اور ریموٹ کنٹرول حکومت کے ذریعے کیونکر جیت سکتا ہے۔ گزشتہ تین دھائیوں سے امریکہ جس انداز سے دنیا پر جنگیں مسلط کرتا آ رہا ہے یہ ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ یہ کسی جنگی حکمت عملی سے بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔ امریکہ کے لئے ویسے بھی ایسا ممکن کر دکھانے کے امکانات کم ہے۔
جیسا کہ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد 1500بار معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے مگر انہوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی طرح سے بھی استعمال ہونے سے گریز کیا ہے۔ افغان مجاہدین نے داعش اور دولت اسلامیہ کی پرتشدد کارروائیوں سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ طالبان کی یہ حکمت عملی قابل فہم بھی ہے وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ مزید تشدد پھیلانے افغانستان سے نکل جائے اور یہ مسئلہ طالبان پر چھوڑ دے اس بات کا فیصلہ کوئی مستقبل ہی کر سکتا ہے کہ طالبان پرتشدد دھڑوں سے معاملہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ناکام۔
گریٹر مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر امریکہ کی کمزور ہوتی گرفت ممکن ہے امریکہ کو سول وار، حملے کرنے اور عسکری مداخلت کی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کر دے۔ ممکن ہے امریکہ اور اس کے اتحاد عسکری جارحیت کے بجائے پرجو ش معاشی مددکے ذریعے خطے کے لوگوں کے دل جیتنے کی پالیسی پر غور کریں مگر یہ معاشی پالیسی توجہ طلب اور نتیجہ خیز بھی ہونی چاہیے۔ جیسا کہ چین کے سی پیک اور بی آر آئی منصوبے ہیں، جن کے ذریعے مستحکم معاشی ترقی اور صنعتی انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور چین ان منصوبوں پر مارشل پلان کے تحت عمل درآمد بھی کر رہا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس قسم کے امریکی منصوبے عملی طور پر منظر عام پر بھی آتے ہیں جس سے خطے کے حالات بدل جائیں یا پھر امریکی ترقی کے دعویٰ ماضی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لئے بطور ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔