حکمرانی کا بحران اور صوبائی حکومتیں
پاکستان کا بحران حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ سیاسی یا غیر سیاسی حکومتوں کے ادوار بھی ہمیں ایک اچھی اور شفاف طرز حکمرانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
سیاست اورجمہوریت یا قانون کی حکمرانی کے بطن سے اگر اچھی حکمرانی کا نظام پیدا نہ ہو یا لوگوں کا نظام پر عدم اعتماد ہو تو سیاست اور جمہوریت کا مصنوعی عمل اپنی اہمیت کھودیتا ہے اس لیے موجودہ صورتحال میں لوگوں کی سیاسی و حکمرانی کے نظام پر بہت زیادہ عدم اعتماد یا بداعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اچھی حکمرانی سے ہماری مراد کیا ہے۔ عمومی طور پر اچھی حکمرانی کو لوگوں کا نظام پر اعتماد، وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم، اداروں تک عام افراد کی رسائی، نگرانی اورجوابدہی کا موثر نظام، ادارہ جاتی عمل کا مضبوط ہونا، کمزور طبقات کے مفادات کو زیادہ تقویت دینا، اختیارات کی تقسیم اورعدم مرکزیت کا نظام، شہریوں کی نظام امور میں موثر شمولیت یا ان کی فیصلہ سازی میں شراکت، انصاف کا موثر نظام جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عمومی طور پر ہم ایک سیاسی نعرہ مرکزیت کے نظام کے تناظر میں سنتے تھے کہ چھوٹے صوبوں کے مفادات پر مرکز کا قبضہ ہے۔ کہا جاتا تھا کہ مرکز صوبوں کو کمزور کرنے کے بجائے خود کو مضبوط کرکے وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھتا ہے۔ اسی سوچ اورفکر کی بنیاد پر صوبائی سطح پر خود مختاری کے نعرے کو بہت زیادہ تقویت ملتی تھی۔
اسی سوچ کی بنیاد پر مرکز کو حکمرانی کے شفاف نظام میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ہمیں ماضی کے صوبوں کے مقابلے میں صوبوں کی ایک نئی حیثیت دیکھنے کو ملی اور یہ تمام صوبے زیادہ وسائل اور خود مختاری کی شکل اختیار کرگئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری حکمرانی کا نظام صوبائی سطح پر اپنی سیاسی، انتظامی اور معاشی افادیت قائم نہیں کرسکا ہے۔
یہ مسئلہ پاکستان کے کسی ایک صوبہ کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں ہمیں عوام کے بنیادی مسائل کے تناظر میں ایک بڑا حکمرانی کا بحران دیکھنا پڑتا ہے۔ وفاق کو اس معاملے میں ایک بڑا ذمے دار بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام آدمی جس کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے اسے ہی کامیابی یا ناکامی کی وجہ سمجھتا ہے۔ اس وقت بھی جو حکمرانی کا بحران چل رہا ہے اس میں سب سے زیادہ تنقید یا گالیاں وفاقی حکومت کو ہی سننی پڑتی ہیں اور تاثر یہ بنتا ہے کہ مسئلہ صوبائی حکومتوں کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد حکمرانی کے بحران کے حل کی بنیادی کنجی یا ذمے داری اصولی طور پر صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں ایک مضبوط، مستحکم اور مربوط مقامی حکومت کے نظام کی مدد سے حکمرانی کے بحران کو حل کرے۔
1973کے آئین کی شق140-Aتمام صوبائی حکومتوں کو پابند بناتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے صوبوں میں مقامی نظام کی تشکیل کو لازمی بنائیں بلکہ ان کو سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات کی مدد سے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کریں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ محض وفاق پر الزامات لگا کر صوبائی حکومتیں حکمرانی کے بحران سے خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں، جو درست عمل نہیں۔ ماضی میں ہم یہ منطق دیتے تھے کہ وفاق صوبوں کو اختیارات دینے کے بجائے اسے سلب کررہا ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ صوبائی سطح پر موجود حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں "مرکزیت کے نظام " کی بنیاد پر کھڑی ہیں۔
یہ صوبائی حکومتیں کسی بھی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کی نہ تو تشکیل کی حامی ہیں اورنہ ہی انھیں اختیارات دینے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں نہ تو مقامی نظام موجود ہے اور عملاً یہ نظام مفلوج اور سیاسی استحصال کا شکار ہے۔ صاف پانی، سیوریج، صفائی، ناجائز تجاوزات، مقامی عدل وانصاف، بے ہنگم ٹریفک، بیجا گندگی کے ڈھیر، کمیونٹی کی سطح پر تعلیم اور صحت کی سہولتوں، مقامی امن و امان، پولیس اور مقامی ادارے یعنی، پانی، صفائی سمیت دیگر ادارے، مقامی وسائل کی منصفانہ تقسیم ایسے معاملات ہیں جو اول صوبائی حکومت اور دوئم مقامی حکومت کے نظام کی باہمی کاوش سے جڑا ہوتا ہے۔
موجودہ حکمرانی کے بحران کا سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اورمعاشی آڈٹ کیا جائے تو بنیادی ذمے داری حکمرانی کے بحران کی صوبائی حکومت پر عائد ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومتیں وسائل اور اختیارات تو لینا چاہتی ہیں اوراس پر شور بھی بہت مچاتی ہیں لیکن اپنی حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے اور خود کو جوابدہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے حالیہ حکمرانی کے بحران پر درست تجزیہ کیا ہے۔ ان کے بقول جب تک کمزور سیاسی قیادت، کمزور سیاسی فیصلے اورکمزور سیاسی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کو چلایا جائے گا، حکمرانی کا بحران حل ہونے کے بجائے اورزیادہ پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔ فواد چوہدری تو خود اپنی وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ ان کی اپنی پالیسی بھی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے حوالے سے مثبت نہیں۔ فواد چوہدری ایک مضبوط مقامی نظام کے حامی ہیں اوراسی کو حکمرانی کے نظام کی بہتری کی کنجی سمجھتے ہیں۔
تحریک انصاف اورعمران خان کی سیاست کے اہم نکات میں بنیادی نکتہ مقامی حکومتوں کے نظام سے بھی جڑا ہوا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان دو برسوں میں پنجاب اورخیبر پختونخواہ بھی مضبوط مقامی نظام حکومت سے محروم ہے۔ حالانکہ چند عرصہ پہلے عمران خان نے اعتراف کیا کہ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، پنڈی، فیصل آبادکا نظام روائتی طریقے سے نہیں چلے گا۔ ان کے بقول ان کا نظام بھی باقی شہروں کے نظام سے مختلف ہونا چاہیے اورمقامی نظام کی مضبوطی اس کی بنیاد ہونی چاہیے۔
لیکن وہ کیا وجوہات ہیں کہ عمران خان اپنی خواہش یا اپنی سیاسی کمٹمنٹ کے باوجود بھی اس نظام میں کچھ بڑا نہیں کرسکے۔ ہمارے میڈیا اوراہل دانش کی سطح پر بھی حکمرانی کے بحران کی ذمے داری مکمل طور پر صوبائی حکومتوں پر ڈالنے سے گریز کرتی ہیں۔ میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حکمرانی کے بحران میں زیادہ جوابدہ بنائیں اوران کی زیادہ باز پرس کی جائے کہ وہ کیونکر ایک اچھی حکمرانی پیدا نہیں کرسکے۔
یہ جو ہم صوبوں میں گندگی، سیلاب یا بارشوں کی صورت میں مسائل دیکھتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ان مسائل پر عدم توجہ ہوتی ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں عوامی نمایندوں کے مقابلے میں سرکاری افسران یا بیوروکریسی پر انحصار کرکے نظام حکومت کو چلانا چاہتے ہیں۔ یہ تجربہ ماضی میں بھی ناکام ہوا اوراب بھی ہمیں بڑی ناکامی کے کچھ نہیں دے رہا۔ اصل مسئلہ صوبائی حکومتوں کی یا تو صلاحیت کے فقدان سے جڑا ہوا ہے یا ان کی سیاسی کمٹمنٹ میں سیاسی نیتوں کا فتور ہے۔
ان صوبائی حکومتوں کے پاس نہ تو پورے صوبے کی ترقی کا ماسٹر پلان ہے اورنہ ہی بڑے شہروں کے حوالے سے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی یا حکمت عملی ہے۔ یہ صوبائی حکومتیں روائتی، فرسودہ اور پرانی سیاسی سوچ کے ساتھ خود جو حکمرانی کا نظام چلارہی ہیں وہ خود ایک بڑی رکاوٹ یا ان کی اپنی سیاسی نااہلی کے زمرے میں آتا ہے۔ وفاق کو یقینی طور پر خود بھی اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لانی ہے تو دوسری طرف وفاق کی ذمے داری ہے کہ وہ چاروں صوبوں کو بھی ذمے دار بھی بنائیں اوران کی جوابدہی کا نظام بھی چلائیں۔
صوبائی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد جس میں حکومت اورحزب اختلاف دونوں شامل ہیں، صوبائی حکومت جس میں وزیروں اورمشیروں کی فوج ہوتی ہے، ایک بڑی پھیلی ہوئی بیوروکریسی اورحکومتی انتظامی ڈھانچہ، مقامی حکومتوں کا نظام اوران کے منتخب نمایندے اوراس کے بعد بھی صوبائی نظام اچھی حکمرانی نہیں دے سکا تو پھر اس سارے بھاری بھرکم حکمرانی کے کے نظام کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
مسئلہ کسی ایک حکومت پر الزام تراشی کا نہیں۔ حکمرانی کا نظام وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کے درمیان باہمی رابطہ کاری، اعتماد سازی، تعاون یا سہولت کار کے عمل سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب حکمرانی کے نظام میں یہ ادارے خود ذمے داری لینے کے بجائے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوجائیں خاص طور پر صوبائی و مقامی حکومتیں تو پھر حکمرانی کے نظام کو درست کرنا سیاسی نعرہ تو ہوسکتا ہے، مگر کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔