پاکستان کے صنعتی دارالخلافہ سے
میں کراچی میں ہوں بلکہ سٹیل ٹائون میں ہوں۔ ایک عجب کرب سے دوچار ہوں۔ ایک تو بھائی کے انتقال کا دکھ، دوسرا سٹیل ملز کے حالات پر تبصرے سن سن کر پریشان ہو رہا ہوں۔ میرا یہ بھائی مجھ سے 11سال چھوٹا تھا۔ لاکھ کہیں ماموں زاد تھا مگر سب جانتے ہیں کہ وہ بھائی ہی تھا۔ برسوں میرے پاس رہا، میرے ساتھ رہا۔ شادی ہو گئی تو بھی کراچی میں اس کا اصل ٹھکانا ہمارا گھر ہی تھا۔ اب میں نے میرا کی بجائے ہمارا کا لفظ استعمال کیا اس لیے کہ اب یہ مجھ سے زیادہ اس کی بھابھی کا گھر تھا۔ حق مغفرت کرے، جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد دعا میں مصروف تھا۔ سجدہ کی حالت ہی میں چل بسا۔ مزید کیا لکھوں؟ اپنے احباب سے صرف اتنا کہنا ہے کہ راجہ فیاض انور اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
میں اس پر ہی یہ کالم لکھنا چاہتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ گزشتہ کئی برس سے سٹیل ملز کے ملازموں کی طرح وہ کتنا پریشان تھا۔ یہ صرف ایک ادارے کی تباہی نہ تھی، ہزارہا خاندانوں کے کرب کی داستان ہے۔ ملک کے ایک بہت بڑے قیمتی اثاثے کا اجڑنا ہے۔ یہی فیاض کو دیکھئے ابھی یہ اسٹیل ملز شروع نہیں ہوئی تھی کہ اس کے شعبہ انجینئرنگ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ روس تربیت لینے گیا۔ پہلی خبر یہ سنی کہ روس جانے والوں پر پانچ پانچ سال تک پابندی ہے کہ وہ نوکری نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے بانڈ بھر رکھے ہیں۔ ہو یہ رہا تھا کہ ابھی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ بانڈ کی یہ مدت پوری ہو جاتی۔ خدا خدا کر کے پروڈکشن کا آغاز ہوا۔ کارکنوں نے دن رات بھی ایک کیے ایک کامیاب ادارے کی تمام سہولتوں کا بھی فائدہ اٹھایا۔ یہ ادارہ ان کا خواب بن گیا۔ یہاں زندگی کی سب سہولتیں ہوں گی۔ صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ، جوں جوں ادارہ آگے بڑھتا گیا، سب کچھ میسر رہا۔ نئے عہدکا نیا ادارہ تھا۔ اس کے اپنے انداز تھے اور یہاں کام کرنے والے بھی خوابوں میں گھومتے تھے۔ ایک برادری میں ڈھل گئے تھے۔ آج سب اداس تھے۔ ان کے خوابوں کی دنیا اجڑ چکی ہے۔ سٹیل ملز گزشتہ چار سال سے بند پڑی ہے۔ اب بھی 9 ہزار ملازم اس سے وابستہ ہیں۔ بہت سے ریٹائر ہو کر اپنے واجبات کا انتظار کر رہے ہیں۔ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ جنہوں نے ساری زندگیاں یہاں لگا دیں اور آنے والے دنوں کا بندوبست بھی اپنے تئیں کرتے رہے۔ اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ہر ماہ تنخواہ سے پیسے کٹواتے تھے کہ جلد پلاٹ مل جائے گا۔ اب جانے وہ پلاٹ کس مافیا کے قبضے میں ہیں، گزشتہ دنوں منی لانڈرنگ کے کیس کے حوالے سے اک ذکر تو آیا تھا کہ کچھ واگزار کرا لیے گئے ہیں۔
میں نے سٹیل ملز کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب ابھی اس کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ یہ تکمیل کے مرحلے تقریباً طے کر چکی تھی۔ 1982ء کی بات ہو گی۔ مجھے یاد ہے میں بھی خوابوں کی دنیا میں کھو گیا تھا۔ اسے پاکستان کا نوتعمیر شدہ صنعتی دارالخلافہ لکھا تھا۔ مجھے یاد ہے دارالحکومت نہیں دارالخلافہ لکھا تھا۔ 19ہزار ایکڑ پر پھیلی ایک سلطنت تھی جس کے اندر کئی سو میل لمبی سڑکیں اور ریل کی لائنیں تھیں۔ سمندر سے خام مال لانے کے لیے ایک بیلٹ چلتی تھی کوئی 3میل لمبی تھی۔ ان دنوں میل ہی ہوا کرتی تھی۔ پورٹ قاسم کی تعمیر میں بھی بنیادی جذبہ یہی تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سٹیل مافیا نے جو ایک عرصے سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت سے محروم کر رکھا ہے، وہ رکاوٹیں اب دور ہونے والی ہیں۔ ملز چلی تو مافیا کا کام شروع ہوا۔ یونین جماعت اسلامی کی بھی تھی اور مسلم لیگ کی بھی، مگر اصل کام پیپلزپارٹی نے دکھایا اور ایم کیو ایم نے اپنے اپنے دور میں چھ چھ ہزار جعلی ملازم عارضی ملازمت پر بھرتی کر لیا۔ سٹیل ملزم ڈوبنے لگی۔ پھر ایک آدھ اور منتظم آیا صبیح قمر الزماں جرنیل تھے، واہ آرڈیننس فیکٹری سے آئے تھے۔ انہوں نے سب کچھ سیدھا کر دیا۔ سٹیل ملز بڑے زوروں سے چلنے لگی۔
یہاں جس بستی میں اس وقت میں ہوں، یہ روسیوں نے سٹیل ٹائون کے نام سے اپنے کارکنوں اور افسروں کے لیے بنائی تھی کیا عمدہ منصوبہ بندی تھی۔ ہر سہولت میسر تھی۔ روسیوں کے جانے کے بعد پاکستانیوں نے بھی اسے عزیز رکھا، آج کل کھنڈر بتا رہے ہیں، عمارت عظیم تھی۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، دھول اڑاتے راستے، اچھے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔ مصیبت کا آغاز اس وقت ہوا جب جنرل مشرف کے زمانے میں شوکت عزیز نے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ جنرل قیوم اس وقت چیئرمین تھے۔ انہوں نے ایک ایک کو بلا کر بتایا کہ اس وقت نجکاری نہ کرو، ذرا اس کو بہتر کر لینے دو ان کے زمانے میں سارے قرضے ادا ہو چکے تھے اور 10 ارب کا منافع بنک میں موجود تھا۔ درخواست کی اسٹیل ملز کے اپنے خرچے پر 160 مختلف نوعیت کے کام ہیں جو کروا لینے کی اجازت دے دی جائے۔ یقین تھا پیداوار 15 لاکھ ٹن ہو جائے گی۔
اس کی تعمیر کے وقت یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ اسے پہلے 15 لاکھ تک توسیع دی جائے گی۔ پھر 30 لاکھ ٹن تک لے جایا جائے گا۔ ضروری تعمیرات کی بنیادیں بھی ڈال دی گئی تھی۔ مگر جب اونے پونے بیچنے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ادارے کو تباہ کر دیں گے۔ ایسے ہی لگتا ہے۔ جعلی افرادی قوت کا بوجھ، لوٹ مار کا وسیع میدان، غرض کیا کچھ نہیں ہوا۔ مجھے زبانی ازبر ہو گیا ہے۔ آخر ایک وقت آیا جب اس سٹیل ملز میں پروڈکشن بند کر دی گئی۔ خام مال منگوانا بند کر دیا گیا۔ اللہ اللہ، خیرصلا۔ اب نجکاری کا انتظار ہونے لگا۔ چلتا ہوا ادارہ اب بند پڑا ہے اور یہاں کچھ نہیں ہو رہا، صرف آہ و بکا ہے۔ ملازمین کو چار چار مہینے بعد حکومت کی عنایت خسروانہ کی بدولت تنخواہ ملتی ہے تو ذرا بستی میں رونق دوڑ جاتی ہے۔ یہاں رہنے والے گویا اب ایک کمیونٹی ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں ایک سے ایک بڑھ کر شریک۔ میں نے دیکھا ہم عزیز رشتہ دار تو بعد میں پہنچے۔ بچے اس کے چھوٹے ہیں، ساری انتظامات مقامی لوگوں نے کر لیے تھے۔ لگتا تھا وہ میزبان ہیں اور ہم مہمان۔
مجھے غزہ کی پٹی یاد آ گئی۔ وہاں بمباری ہوتی ہے۔ گھر مسمار ہوتے ہیں۔ شام کو ساری بستی باہر نکل آتی ہے اور گھر میں جو موجود ہوتا ہے کھا پی کر گزارہ کر لیتی ہے۔ مواخات کا عہد حاضر میں بہترین نمونہ اب تو مدینہ کی ریاست والوں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ریاست مدینہ کا مطلب خوشحالی نہیں، ایشیائی ٹائیگر بننا نہیں، بلکہ مشکل حالات میں گزارہ کرنا ہے۔ اب وہ سکینڈے نیویا کی فلاحی ریاست کا نام بھی نہیں لیتے۔ اللہ ان کی حالت پر رحم فرمائے۔
مجھے یاد ہے کہ میں جب یہاں بار بار آتا تو بتایا جاتا اصل منصوبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ کافی زمین خالی چھوڑی گئی تھی، جہاں 22ڈائون سٹریم انڈسٹریاں لگنا تھیں۔ یعنی وہ صنعتیں جن کا تعلق سٹیل انڈسٹری سے ہے۔ ملک کا پورا نقشہ بدل جانا تھا، وہاں ایک بھی انڈسٹری بھی لگائی نہ گئی۔ میں اس صنعتی دارالخلافہ کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں، مل کر نہیں دیتا۔ شاید عربین سی کے نام پر سمندر کے ساحل پر ایک گالف کلب بھی ہے۔ بالکل یہاں ایک "نیا پاکستان" کا آغاز ہونا تھا۔ اب تو ہماری مقتدرہ کی نظریں اس زمین پر ہے۔ سندھ حکومت نے اپنی عادت کے مطابق اعلان کیا، سٹیل ملز ختم ہو تو یہ زمین سندھ حکومت کو واپس کی جائے۔ ایک بار ایک جزیرے پر ہائی رائز عمارتوں کے ایک منصوبے کا اعلان ہوا، سندھ حکومت نے دہائی دی یہ ہماری زمین ہے، کون ہوتا ہے وفاق یہ منصوبہ بندی کرنے والا۔ وہ لگتا ہے لوٹ مار کرنے والوں کی حکومت ہے، لینڈ مافیا کا بول بالا ہے۔ ان کے لیے سمندر کے کنارے یہ بہت قیمتی زمین ہے۔ سٹیل ملز کو تو بند کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کیا لینا دینا۔ زمین، پلاٹ، اپارٹمنٹ، بنگلے، سٹیل ملز سے کیا لینا دینا۔ میں اس بستی کو اجڑتا ہی نہیں دیکھ ہا، اس کے ساتھ پاکستان کے صنعتی دارالخلافہ کی تباہی کا منظر بھی دیکھ رہا ہوں۔ میرا بغداد ہلاکو خانوں نے لوٹ لیا۔ ایسے ملک دشمن حکمران کم ہی آئے ہوں گے اور لوٹ مار کا ایسا بازار بھی کسی ملک میں کم برپا ہوا ہو گا۔
یہ بھی کراچی کی بربادی کی داستانوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان ایئرلائنز کا ہیڈکوارٹر اگر اسلام آباد منتقل ہو گیا ہوتا تو آج ان حالوں میں نہ ہوتی۔ سٹیل ملز کا بھی یہی معاملہ ہے، یہ کراچی میں نہ ہوتی تو آج خوب پھل پھول رہی ہوتی۔ اس شہر کو لٹیروں نے لوٹا ہے۔ بہت سی ایسی تفصیلات ہیں جنہیں اب چھپانا جرم ہو گا۔ اب بھی یہ شہر سسک رہا ہے۔ اس کے ادارے سسک رہے ہیں۔ کون ہے جو مسیحائی کرے۔
یہ کالم میں نے چلتے پھرتے لکھا ہے۔ صرف اس لیے کہ کل جب میں سیاست میں کھو جائوں گا تو یہ سب بھول جائوں گا۔ میں بھی تو مجرم ہوں۔