نیا آغاز
جلسہ جیسا بھی ہو، یہ بات طے ہے کہ آج کے بعد اس ملک کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس بات کا بھی مجھے اندازہ ہے کہ حکومت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہی ہے۔ ان کی تلملاہٹ بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ میں اس پر کوئی ایسا خوش نہیں ہوں۔ ویسے تو گزشتہ نصف صدی سے ملک میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہا ہوں تاہم گزشتہ ایک عشرے سے کچھ اوپر جب مشرف رخصت ہوئے تو دوبارہ جمہوریت کے سپنے آنے لگے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہم نے ایک طفیلی ریاست کے طور پر جو دکھ سہے ہیں۔ اس نے ہمیں میدان جنگ میں تو کوئی کامیابی نہیں دی، الٹا ہماری معیشت اور انتظامیہ کے ڈھانچے کا انجر پنجر ڈھیلا کر دیا ہے۔ صارفین کی معیشت (کنزیومر اکانومی) کے سبز باغ دکھا کر ملک کو وہاں پہنچا دیا جہاں پہنچناناممکن تھا۔ کالا باغ تو وہ بنا نہ سکا، الٹا انرجی کا بحران اتنا سنگین کر دیا کہ ساری صنعت سٹینڈ سٹل پر تھی۔ ہم کچھ پیداہی نہیں کر سکتے تھے کہ کارخانے چلانے کی انرجی نہ تھی۔ بدقسمتی سے جو پہلی حکومت آئی اس کا رینٹل پاور کا تجربہ ناکام رہا۔ میں نہیں کہتا، اس میں لو ٹ مار تھی۔ بس ناکام رہا، کہہ رہا ہوں، اس کے بعد اسحق ڈار نے جس معیشت کی بنیاد رکھی۔ اس کے خلاف میں ان کے زمانے میں بھی بولتا رہتا تھا۔ مگر اطمینان تھا کہ اس منصوبہ بندی نے ملک سے انرجی کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ بجلی کے منصوبے لگے جو پہلے سے لگے منصوبوں سے کہیں سستے تھے۔ گیس کا ٹرمینل لگا جو لوگ امرتسر میں لگانے کی تیاری کر رہے تھے کہ بمبئی کے راستے گیس منگوا کر ہمیں یہاں سے فراہم کی جائے۔ ہم نے دیکھا کہ دو ڈھائی برس میں بجلی وافر مقدار میں موجود ہونے لگی۔ وہ سستی بھی تھی اور اسے اور سستا بھی ہونا تھا کیونکہ فرنس آئل کے پرانے منصوبوں کو بند ہونا تھا یا انہیں جدید روپ اختیار کرنا تھا۔ لگتا تھا کہ اب جمہوریت کے ہاتھ میں معیشت کا سرا آ گیا ہے۔ میں نواز شریف کا اس لئے قائل تھا کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے ثابت کیا کہ دائیں بازو کے پاس بھی معاشی مسائل کا حل موجود ہے اور ایسا ویسا نہیں۔ بہت جدید اور پراثر۔ نوے کے عشرے میں جب ہم نے کرسی کو اوپن کیا، ملک میں گرین چینل کھول دیے اور آزاد معیشت کی طرف پیش قدمی کی تو اس وقتکے بھارتی وزیر خزانہ (بعد میں وزیر اعظم)چیخ اٹھے کہ اگر پاکستان اسی راستے پر چلتا رہا اور ہم نے گویا ہندو نظام معیشت ہی کو گلے لگائے رکھا، تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے اور پاکستان بہت آگے نکل جائے گا۔
یہ تو خیر پرانی بات ہے۔ اس بار بھی جب انہوں نے انرجی کے مسئلے کو حل کر دیا اور ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا اور ملک کی شرح نمو کو سات فیصد تک لے جانے کی ابتدا کر دی تو صاف دکھائی دیتا تھا کہ اب ہم دشمن کا مقابلہ کر سکیں گے۔ وہ سفر جو مشرف کی آمد سے رکا تھا۔ اب دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ سیاست کے اپنے اتار چڑھائو ہوتے ہیں وگرنہ آصف زرداری نے بھی کوشش کی تھی کہ مسلم لیگ کم از کم اسحق ڈار کو ان کی حکومت کا وزیر خزانہ رہنے دے۔ بہرحال جب ہم ٹیک آف کے سٹیج میں تھے تو ملک میں ایک اور انقلاب آ گیا۔
سچ پوچھئے تو اس نئے انقلاب سے میں کوئی اتنا بدظن نہ تھا۔ یقینا اتنا توہرگز نہیں جتنا بھٹو کی آمد سے تھا۔ مگر قدرت کے سبق سکھانے کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ مجھے لاہور کا مینار پاکستان والا جلسہ یاد ہے۔ اس کی تیاریوں کو بھی میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ نعرے، تقریریں، تیاریاں سب کچھ سامنے ہوتے ملاحظہ کیا ہے۔ خیال تھا کہ تبدیلی آنے والی ہے۔ جب میری نسل کا سب سے قیمتی سرمایہ جاوید ہاشمی کی شکل میں تحریک انصاف میں جا پہنچا تو خیال آیا اسے نظرانداز نہ کرو۔ نوجوانوں کے جذبات کچھ ہوں۔ مگر ان کا کسی سمت جانا معنی خیز ہوتا ہے۔ میں نے اس زمانے میں عمران کے سال میں چار چار انٹرویو بھی کئے ہیں۔ ان سے کوئی زیادہ امیدیں نہ تھیں۔ تو بدظنی بھی نہ تھی۔ ہاں البتہ جب ہر کسی کو کنٹینر کی زبان بولتے سنتا تھا تو طبیعت مکدر ضرور ہوتی تھی، ویسے بھی میری ترجیحات میں اس وقت بھی نواز شریف کو اولیت حاصل تھی۔ پوری قوم کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے۔ میں یہ کالم جمعہ کی نماز سے پہلے ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھیافراد کے اعداد و شمار ناپنے کے پیمانے تو بس اضافی ہی ہوتے ہیں۔ کراچی کا نشتر پارک ایک زمانے میں لاہور کے موچی دروازے کی طرح ایک مقبول جلسہ گاہ تھی۔ وہ گرائونڈ بھر جاتا تو ہم اسے تین لاکھ کا مجمع کہا کرتے، ذرا کم رہ جاتا تو اڑھائی لاکھ یا چلیے دو لاکھ کہہ دیتے ایک بار ماہرین نے پیمائش کر کے اندازہ لگایا کہ اتنی جگہ پر ساتھ ساتھ بھی لوگ کھڑے ہوں تو اس میدان میں 40ہزار افراد سے زیادہ سمانے کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ آج کچھ دیر پہلے پنجاب کے راجہ بشارت بتا رہے تھے کہ گوجرانوالہ کے جناح سٹیڈیم میں اگر کرسیاں لگ جائیں تو 20ہزار کی ورنہ تیس ہزار کی گنجائش ہے۔ میں عمران خاں کے مینار پاکستان کے جلسے کو گیم چینجر سمجھتا ہوں اور اسے ایک بڑا کامیاب جلسہ سمجھتا ہوں۔ یہ پہلا بڑا جلسہ تھا جس میں کرسیاں لگانے کا رواج شروع کیا گیا۔ بعد میں لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تعداد زیادہ دکھانے کے لئے کیا گیا، کچھ کہہ لیجیے مگر اس نے ملک کی تاریخ کا رخ بدل دیا۔
اس لیے میرے پیارے وزیروں مشیروں اس اعداد شماری کے چکر میں نہ پڑھیے۔ یہ ایک بڑا جلسہ ہو گا نہ بھی ہو تو فرق نہیں پڑتا، آپ نے اسے کامیاب کر دیا ہے، پورے پنجاب کے دل میں ہلچل مچا دی۔ گوجرانوالہ ڈویژن اور اردگرد کے علاقوں میں ہر شہر میں آپ نے جو فضا پیدا کی ہے، اس سے لوگوں نے جان لیا ہے کہ بھولے بسرے دن لوٹ رہے ہیں۔ حکمران جماعت میں خال خال ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے سیاسی تحریکیں دیکھی ہیں، وقت بدل رہا ہے، اس جلسے کے بعد کی فضا میں سارے شیخ رشید، فواد چودھری، شبلی فراز بے معنی ہو جائیں گے۔ اس حکومت کے سارے حامیوں کے تجزیے اور تبصرے ایک فارمولے کے تحت ہوتے ہیں۔ ویسے یاد رکھیے ایک صفحہ پھاڑ کر دوسرا صفحہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ ادارے ملکی سلامتی اور بہتری کے ضامن ہیں۔
خدا کرے آپ جیئیں ہزاروں سال اور ہر برس کے ہوں برس ہزار، تاہم آپ کو ہوائوں میں پھیلتی بو کو سونگھ لینا چاہیے۔ لوگ بہت تنگ آ چکے ہیں۔ وہ مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ اس تحریک سے ہٹ کر بھی اسلام آباد میں دھرنا بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ آپ کا دھرنا اس لئے کامیاب نہ تھا کہ پارلیمنٹ آپ کے ساتھ نہ تھی۔ جوڑ توڑ سے حکومت تو بچائی جا سکتی ہے مگر یہ اپنے پائوں پرچلتی نظر نہیں آرہی۔